IMG_20250429_032448_690.jpg

لبنان کی موجودہ صورتحال پر حزب اللہ کے رہنما شیخ نعیم قاسم کا اہم خطاب
بیروت – خبر رساں ادارے

حزب اللہ لبنان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے اپنے تازہ خطاب میں لبنان کی موجودہ سیاسی اور عسکری صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری اولین ترجیح اسرائیلی حملوں کا خاتمہ، جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوج کی پسپائی اور قیدیوں کی آزادی ہے۔

شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ ایک جنگ بندی معاہدہ موجود ہے جس کی پابندی ہم بطور اسلامی مزاحمت اور دیگر مزاحمتی دھڑوں کے طور پر کر رہے ہیں تاکہ حکومت کو مضبوط بنایا جا سکے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ لبنان نے جنگ بندی کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی، جبکہ اسرائیل تین ہزار سے زائد مرتبہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حملے کر چکا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پر دباؤ ڈالنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، لیکن اب تک صرف "نرم دباؤ” ڈالا گیا ہے۔ حزب اللہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مزید سخت اقدامات کرے اور ثالث ممالک (امریکا اور فرانس) کے سفیروں کو طلب کرے۔

گزشتہ روز جنوبی ضاحیہ پر ہونے والے اسرائیلی حملے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس حملے کا مقصد سیاسی دباؤ ڈالنا تھا اور یہ کارروائی امریکی تائید کے ساتھ انجام دی گئی۔

شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ اسرائیل لبنان کو کنٹرول کرنا، یہاں آباد کاریاں کرنا اور اسے کمزور کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے، انہیں یہ وضاحت کرنی چاہیے کہ اسرائیل نے لبنان پر 18 سال تک قبضہ کیوں رکھا اور آخرکار مزاحمت کی وجہ سے پسپا کیوں ہوا۔

انہوں نے واضح کیا کہ لبنان اپنی مزاحمت، فوج اور عوام کے ذریعے مضبوط رہے گا اور حزب اللہ اپنی طاقت سے دستبردار نہیں ہوگی۔

شیخ نعیم قاسم نے مزید کہا کہ حزب اللہ حکومت کی حمایت کرتی ہے اور ملک میں بیرونی عناصر کی جانب سے پیدا کی جانے والی دراڑوں کو ناکام بنائے گی۔ حکومت لبنان کی تعمیر نو کی ذمہ دار ہے اور ہم اس میں اس کی مدد کر رہے ہیں، لیکن اقتصادی اور سماجی ترقی کے لیے منصوبہ بندی حکومت کو ہی کرنا ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ حزب اللہ نے رہائش کی فراہمی اور تعمیر نو میں حکومت کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے، جو کہ کسی اور جماعت یا مزاحمتی تحریک کے بس کی بات نہیں۔ انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران اور بالخصوص رہبر معظم امام خامنہ ای اور ایرانی عوام کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے لبنان کی حمایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ ایران نے لبنان کے لیے کیا کیا ہے، انہیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ دیگر ممالک نے لبنان کے لیے کیا کردار ادا کیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے