پہلگام واقعہ! عقل و دلائل پر حاوی ہوتا ہیجان

محض اتفاق ہے کہ سن 2000ء کے مارچ کی 20تاریخ کو میں دلی کے ایک ہوٹل میں قیام پذیر تھا۔ اس وقت خبر آئی کہ مقبوضہ کشمیر کے تاریخی شہر اننت ناگ کے قریب واقع ایک قصبے میں 35سکھوں کو قتل کردیا گیا ہے۔ وحشیانہ قتل عام پر مبنی یہ دہشت گردی ان دنوں کے امریکی صدر کلنٹن کے دورہ بھارت سے چند ہی دن قبل ہوئی۔ کشمیری قیادت کے بھارت نواز حلقے بھی نئی دلی میں میرے ساتھ ’’آف دی ریکارڈ‘‘ گفتگو میں مصررہے کہ مذکورہ واردات ’’بھارتی ایجنسیوں‘‘ نے ڈالی ہے۔ مقصد اس کا امریکی صدر کو قائل کرنا ہے کہ مبینہ طورپر پاکستان کی مدد سے مقبوضہ کشمیر میں متحرک ’’دہشت گرد‘‘ فقط بھارتی ہندوئوں ہی کے دشمن نہیں۔ مسلمانوں کے سوا ہر مذہب کے پیروکار کو اپنا ویری گردانتے ہیں۔
چھٹی سنگھ پورہ وہ قصبہ تھا جہاں یہ واقعہ ہوا تھا۔ مذکورہ واقعہ کے بعد میں کم از کم تین برس تک ہر برس کے چھ ماہ بھارت میں مقیم رہ کر رپورٹنگ کرتا رہا۔ میرے قیام کے دوران بھارتی حکومت کی جانب سے تیار ہوئی ایسی کوئی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی جو ثابت کرے کہ سکھوں کے وحشیانہ قتل عام کی ذمہ دار کشمیر کی تحریک آزادی سے وابستہ کوئی تحریک تھی۔ امریکی سفارت کاروں سے بھی نہ صرف اسلام آباد بلکہ واشنگٹن میں ہوئی چند ملاقاتوں کے دوران بھی میں اس واقعہ کے ذمہ داروں کے بارے میں سوال اٹھاتا رہا۔ مجھے کندھے اچکا کر لاعلمی کا احساس دلایا جاتا۔
چھٹی سنگھ پورہ واقعہ سے متعلق ایڈرین لیوی (Levy Adrian ) اور کیتھی سکاٹ۔ کلارک ( Scott-Clark Cathy) نے باہم مل کر ایک کتاب لکھی تھی۔ Meadow The اس کا نام تھا۔ ’’گھاس کا میدان‘‘ یا ’’سبز گھاٹی‘‘ اس کا اردو ترجمہ ہوسکتا ہے۔ یہ کتاب لکھتے ہوئے مصنفین نے اس تنظیم کے کارندوں کا سراغ لگانا چاہا جو خود کو ’’الفاران‘‘ پکارتی تھی اور جنہوں نے مقبوضہ کشمیر میں برطانیہ، امریکہ، ناروے اور جرمنی سے آئے چند سیاحوں کو 1995ء میں اغواء کیا تھا۔ اغواء کاروں کا مصنفین سراغ نہ لگاپائے۔ اپنی کتاب میں تاہم ایسے واقعات بیان کئے جو واضح طورپر یہ پیغام دیتے تھے کہ بھارتی پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیاں متعدد بار اغواء ہوئے افراد کو بازیاب کرواسکتی تھیں۔ انہوں نے مگر بے اعتنائی برتی اور مذکورہ اغواء کو کشمیری حریت پسندوں کو عالمی سطح پر ’’بدنام‘‘ کرنے کے لئے استعمال کیا۔
مذکورہ بالا واقعات یاد دلانے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ میں منگل کی شام مقبوضہ کشمیر کے تفریحی مقام پہلگام میں ہوئی واردات کا ذمہ دار بھارتی پولیس یا انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ٹھہرارہا ہوں۔ اس واقعہ میں 27 افراد کی نامعلوم افراد کے ہاتھوں ہلاکت بھی ہر اعتبار سے دہشت گردی ہے۔ اس کی پرزور مذمت لازمی ہے۔ مذمت کے بعد مگر پہلا مطالبہ یہ ہونا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں جسے اگست 2019ء میں مودی سرکار نے ’’یونین ٹیریٹری‘‘ قرار دے کر بھارت کا اٹوٹ انگ بنالیا تھا اب ایسی واردات کیوں ہوئی۔ مقبوضہ کشمیر کو کئی مہینوں تک دہلی کی براہِ راست نگرانی میں چلاتے ہوئے بھارتی حکومت نے اسے باقی دنیا سے کاٹ کر کئی مہینوں تک دنیا کی وسیع تر جیل میں تبدیل کردیا تھا۔ انٹرنیٹ تو دور کی بات ہے، مقبوضہ کشمیر میں محصور ہوئے عوام غیر ملکوں سے ٹیلی فون رابطے بھی استوار نہیں کرسکتے تھے۔ مقبوضہ کشمیر کے ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لئے بھی کئی مقامات پر شناختی پریڈ اور جامہ تلاشی کے مراحل سے گزرنا پڑتا۔ چار برس کی کڑی نگرانی کے بعد جموں وکشمیر کی اسمبلی کو لداخ سے کاٹ کر بحال کرنے کے لئے انتخاب ہوئے۔ جو انتخاب ہوئے ان کے دوران ٹرن آئوٹ کئی اعتبار سے متاثر کن تھا۔ اس کی بدولت بھارتی حکومت یہ دعویٰ کرنے میں کامیاب ہوئی کہ مقبوضہ کشمیر میں زندگی معمول پر آرہی ہے۔ سیاحت بھی فروغ پارہی ہے۔ صرف 2024ء میں 2کروڑ سے زیادہ سیاح مقبوضہ کشمیر آئے تھے۔
ایسے ماحول میں منگل کی شام ہوا واقعہ ’’انہونی‘‘ شمار ہونا چاہیے۔ جو انہونی ہوئی اس کا سراغ لگانے کے لئے تاہم کھلے ذہن کے ساتھ ہوئی تفتیش درکار ہے۔ انٹیلی جنس کی بے خبری پر سوال اٹھانا بھی لازمی تھا۔ واجب سوالات اٹھانے کے بجائے بھارت کے تمام چینل متحد ہوکر پھیپھڑوں کا زور لگاتے اینکروں کی مدد سے یہ کہانی پھیلانا شروع ہوگئے کہ عرصہ ہوا پاکستان کی جانب سے کالعدم ٹھہرائی ایک تنظیم نے انگریزی زبان کے استعمال سے ایک ’’نیا فرنٹ‘‘ کھڑا کرلیا ہے۔ اس کے لوگوں نے 22اپریل 2025ء کی واردات کا ارتکاب کیا ہے۔ مختصر الفاظ میں پاکستان کو بحیثیت ریاست اس واقعہ کا بلاثبوت ذمہ دار ٹھہرادیا گیا ہے۔
دعویٰ یہ ہورہا ہے کہ جیسے مارچ 2000ء میں کلنٹن کی آمد سے قبل چھٹی سنگھ پورہ والا واقعہ ہوا تھا ایسے ہی واقعہ کو سیاحوں کے ساتھ پہلگام میں دہرانے کی ضرورت اپریل 2025ء میں اس لئے پیش آئی کیونکہ امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس ان دنوں اپنی بھارتی نڑاد اہلیہ اور بچوں کے ساتھ بھارت کے دورے پر ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد وہ جے پور گئے۔ وہاں ان کا شاہی مہمان کی طرح سواگت ہوا۔
جے ڈی وینس سے ملاقات کے بعد نریندر مودی دو دن کے لئے سعودی عرب روانہ ہوگئے۔ وہاں سرکاری ملاقاتوں کے اختتام کے بعد انہیں بدھ کی شام پہلگام کی خبر ملی۔ خبر ملنے کے فوری بعد انہوں نے سعودی کرائون پرنس کے عشائیے میں شرکت سے معذرت کرتے ہوئے فوری طورپر بھارت لوٹنے کا فیصلہ کیا۔ اپنا ردعمل دکھانے میں بھارتی وزیر اعظم نے جوتیزی دکھائی ہے وہ پاکستان کی اکثریت کو یہ سوچنے کو مجبور کررہی ہے کہ وہ بالاکوٹ جیسا کوئی ’’ایڈونچر‘‘ دہرانے کو تیار ہیں۔ قیاس آرائی یہ بھی ہورہی ہے کہ کشمیر پر واقع لائن آف کنٹرول جو 2021ء سے خاموش ہے، ایک بار پھر ’’گرم‘‘ کی جاسکتی ہے۔ بھارت کے سوشل میڈیا پر چھائے ’’ذہن ساز‘‘ مگر ایسے اقدامات کو ’’نرم‘‘قرار دے رہے ہیں۔ وہ بھارتی حکومت پر دبائو بڑھارہے ہیں کہ پاکستان کو ’’حتمی شکست‘‘ سے دو چار کیا جائے۔ ان کے خیالات کے جواب میں پاکستان کے سوشل میڈیا ’’مجاہدین‘‘ بالاکوٹ کے بعد گرفتار ہوئے ایک بھارتی پائلٹ -ابھی نندن- کو پیش کی گئی ’’چائے مزیدار ہے‘‘ یاددلارہے ہیں۔ ہیجان ایک بار پھر عقل ودلائل پر حاوی ہوتا نظر آرہا ہے۔ یہ تقاضہ ہوہی نہیں رہا کہ پہلگام میں ہوئے واقعہ کے حقیقی ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ اس کے بغیر دہشت گردی کی تمام تر ذمہ داری پاکستان کے سرڈال کر میری عاجزانہ رائے میں دہشت گردوں کو حقیقی معاونت فراہم کی جارہی ہے۔