ٹرمپ دور میں امریکہ وسطی ایشیا تعلقات کا منظرنامہ

i-11.Jpg

 

وسطی ایشیا ہمیشہ سے اہم علاقائی کھلاڑیوں (چین اور روس) کے ساتھ ساتھ غیر ملکی کھلاڑیوں (امریکہ اور یورپی یونین) کے درمیان مقابلے کا میدان رہا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس خطے کی جغرافیائی سیاسی اہمیت اور وافر قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ حالیہ دنوں میں بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان جاری مقابلہ بازی کے تناظر میں وسطی ایشیا خطہ خاص اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا بطور امریکی صدر حلف اٹھانا اور واشنگٹن کی خارجہ پالیسی میں کاروباری ترقی کو ترجیح دینا امریکہ کے لیے اس خطے کے کردار اور اہمیت میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکہ اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان سیکورٹی، توانائی، نقل و حمل، اور اہم معدنیات کے اخراج کے شعبوں میں ممکنہ تعاون، جو کہ ترقی یافتہ صنعتوں اور امریکی توانائی کی سلامتی کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں، وسطی ایشیا کے بارے میں واشنگٹن کی پالیسی میں اہم تبدیلیوں کی بنیاد بھی فراہم کر سکتے ہیں۔

 

وسطی ایشیا، ٹرمپ انتظامیہ کی نئی پالیسی کا مرکز و محور

اگرچہ وسطی ایشیا نئی امریکی انتظامیہ کی اولین ترجیح ہونے کا امکان نہیں ہے لیکن یہ توقع بھی نہیں کی جا رہی کہ یہ خطہ بے توجہی کا شکار ہو جائے گا۔ کئی شواہد اس پیشن گوئی کی تائید کرتے ہیں:

اہم معدنیات پر توجہ مرکوز ہونا: کانگریس میں اپنی تقریر کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے ملکی پیداوار کو بڑھانے اور اہم معدنیات اور نایاب زمینی دھاتوں کو نکالنے کے لیے اقدامات انجام دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور اسے "تاریخی اہمیت کا حامل” قرار دیا ہے۔ یہ نقطہ نظر واشنگٹن کے لیے ایک ایسے خطے کے ساتھ تعاون کو نظر انداز کرنا مشکل بناتا ہے جس میں اہم معدنیات جیسے میگنیشیم، کرومیم، سیسہ، زنک، ٹائٹینیم کے ساتھ ساتھ لیتھیم، کوبالٹ اور نکل جیسی نایاب دھاتوں کے بڑے اور اہم ذخائر موجود ہیں۔

متبادل ٹرانسپورٹ کوریڈورز: ایسا لگتا ہے کہ واشنگٹن نئے ٹرانسپورٹ کوریڈورز اور انفراسٹرکچر کی تشکیل سے متعلق منصوبوں پر عملدرآمد جاری رکھے گا جس کا مقصد روس کو نظرانداز کرنا ہے۔ یہ راہداریاں مغرب کے حق میں خطے کی ٹرانزٹ صلاحیت میں اضافہ کریں گی۔ اس تناظر میں ٹرانس کیسپین انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ کوریڈور (TITR) یا "درمیانی راہداری” کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے گی جسے توانائی کے وسائل اور سامان یورپ تک پہنچانے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ راہداری جس میں آذربائیجان، جارجیا، قازقستان، اور ترکی جیسے ممالک شامل ہیں امریکی کمپنیوں کی سرمایہ کاری آسان بنانے اور عالمی منڈیوں تک وسطی ایشیائی ممالک کی رسائی میں مدد دے سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ترکمن گیس کو یورپ تک پہنچانے کے لیے ٹرانس کیسپین گیس پائپ لائن منصوبے میں امریکی دلچسپی بڑھنے کا امکان ہے۔

 

افغانستان کا مسئلہ: 2021ء میں امریکی افواج کے انخلاء کے بعد طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کے باوجود واشنگٹن روس کے ذریعے نقل و حمل کے راستوں کو نظرانداز کرنے کے لیے افغانستان کے راستے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا تک تجارتی رسائی کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔ ٹرانس افغان ریلوے (وسطی ایشیا کو پاکستانی بندرگاہوں سے جوڑنے) اور ٹرانس افغان ملٹی پرپز کوریڈور (افغانی معدنیات کو مغرب تک پہنچانے کے لیے) جیسے منصوبے امریکی کاروباروں کو فعال ہونے اور چین پر خطے کا انحصار کم کرنے کے مواقع فراہم کر سکتے ہیں۔ یہ کام کابل کے ساتھ تعاون کے بغیر انجام نہیں پا سکتا۔ موجودہ افغان حکومت کے وسطی ایشیائی ممالک سے مثبت تعلقات کے پیش نظر واشنگٹن ممکنہ طور پر اس موقع کو اپنی پوزیشن مضبوط کرنے اور افغان مسائل کے حل میں خطے کو شامل کرنے کی کوشش کرے گا۔ افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے علاقائی ممالک کے سیکورٹی خدشات کو نظر انداز کرنا انہیں مزید چین کی طرف دھکیل سکتا ہے۔

 

امریکی پالیسی کے ممکنہ ذرائع اور ترجیحات

سیکورٹی تعاون: انسداد دہشت گردی، خاص طور پر افغانستان کے ساتھ پڑوس کے پیش نظر، خطے کے ساتھ منسلک ہونے میں واشنگٹن کی اہم ترجیحات میں سے ایک رہنے کا امکان ہے۔

توانائی کی منڈی: امریکہ وسطی ایشیا میں توانائی کی ایک بڑی علاقائی منڈی بنانا چاہتا ہے اور خطے کے وسائل کو عالمی معیشت کو مستحکم کرنے اور نئے اقتصادی امکانات پیدا کرنے کا ایک عنصر سمجھتا ہے۔

ڈی ایف سی ایکٹیویشن: ٹرمپ انتظامیہ سے توقع ہے کہ وہ یونائیٹڈ اسٹیٹس ڈیولپمنٹ فنانس کارپوریشن (DFC) کی سرگرمیوں کو دوبارہ فعال کرے گی جس نے اپنی پہلی مدت (جنوری 2021) کے آخر میں قازقستان اور ازبکستان کے ساتھ مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے تھے۔ اس ادارے کا ہدف نجی سرمایہ کاری حاصل کرنا ہے (5 سالوں کے دوران 1 ارب ڈالر کے ابتدائی ہدف کے ساتھ) اقتصادی ترقی کے منصوبوں کو آگے بڑھانا اور وسطی ایشیا میں رابطے کو بڑھانا اور چینی اقدامات کا متبادل فراہم کرنا ہے۔

جیکسن ونک ترمیم کی منسوخی: ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے سرد جنگ کے دور کی اس پرانی ترمیم کو منسوخ کرنے کا امکان ہے جس میں قازقستان، ازبکستان اور تاجکستان پر کچھ سابق سوویت یونین کی ریاستوں کے ساتھ تجارتی تعلقات پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ اگرچہ اس ترمیم کا عملی اثر فی الحال بہت کم ہے لیکن اس کی مکمل منسوخی سے روس اور چینی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری، معدنیات نکالنے اور انسداد دہشت گردی جیسے شعبوں میں تجارت سے آگے تعاون کو وسعت دینے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

تجارتی قوانین اپ ڈیٹ کرنا: امریکی کانگریس میں "تجارت کو جدید بنانے” کا بل پیش کیا گیا ہے جس کا مقصد قازقستان (اور شاید خطے کے دیگر ممالک) کے لیے غیر امتیازی تجارتی نظام کو ختم کرنا ہے۔ یہ اقدام تجارتی تعلقات کا فریم ورک اپ ڈیٹ کرنے اور امریکی کاروباری اداروں کے لیے نئے مواقع پیدا کرنے کی کوششوں کی بھی علامت ہے۔

 

درپیش ممکنہ منظرنامے اور خطرات

عملی نقطہ نظر: ٹرمپ وسطی ایشیا کی اسٹریٹجک اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے عملی نقطہ نظر اختیار کر سکتا ہے اور خطے میں امریکہ کے مالی اور سیاسی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے تمام دستیاب وسائل کا استعمال کر سکتا ہے۔

غیر یقینی صورتحال: دوسری طرف صرف تجارت کی منطق پر زور غیر متوقع پالیسیوں کا باعث بن سکتا ہے جو امریکہ کے اتحادیوں اور حریفوں، بشمول وسطی ایشیائی ممالک، دونوں کو غیر یقینی اور تشویش کی حالت میں چھوڑ دے گی۔

امریکہ چین دشمنی میں شدت: اگر ٹرمپ عالمی سطح پر چین کا مقابلہ کرنے کی اپنی حکمت عملی کو تیز کرتے ہیں تو وسطی ایشیا اس جغرافیائی سیاسی جنگ کا ایک میدان بن سکتا ہے۔

اقتصادی نقصان: واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تجارتی جنگ دوبارہ شروع ہونے سے وسطی ایشیائی ممالک کی معیشتوں کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے جو دونوں طاقتوں پر منحصر ہیں (2024 میں صرف قازقستان کے ساتھ امریکی تجارتی حجم 3.3 بلین ڈالر تھا)۔

امریکی اثر و رسوخ میں کمی: یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ (USAID) جیسے اداروں کے لیے ممکنہ بجٹ میں کٹوتیوں سے امریکہ کا اثرورسوخ کم ہو سکتا ہے اور خطے کے ممالک کے لیے منصوبوں کی مالی اعانت کے لیے چین کے نقطہ نظر کی کشش میں اضافہ ہو سکتا ہے جس سے وہ مزید چین یا روس کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔

کثیر جہتی سفارت کاری کا کمزور ہونا: یہ رجحانات وسطی ایشیائی ممالک کی کثیر جہتی سفارت کاری کی دیرینہ روایت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں جنہوں نے ہمیشہ بڑی طاقتوں کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور انہیں مشکل انتخاب کرنے پر مجبور کیا ہے۔

 

نتیجہ

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وسطی ایشیا کی تزویراتی اہمیت کے پیش نظر (افغانستان سے قربت کی وجہ سے) امریکہ کی نئی حکمت عملی میں اس سلسلے میں خطے کے بعض ممالک کے ساتھ براہ راست تعاون شامل ہو سکتا ہے۔ ان شراکت داریوں کو مضبوط بنانا ابھرتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کرنے اور علاقائی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے خاص طور پر افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد بہت ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اپنی سرمایہ کاری کے تحفظ اور خطے میں توازن برقرار رکھنے کے لیے واشنگٹن کے فعال اقدامات ضروری ہوں گے جو تجارتی تعاملات اور سفارتی دوروں کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ وسطی ایشیا کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر بھی بن سکتے ہیں اور نایاب زمینی دھاتوں پر ایک بڑا معاہدہ اس سفر کا اہم نتیجہ ہو سکتا ہے۔ وسطی ایشیا کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی کا زیادہ تر انحصار بھی امریکہ اور روس کے تعلقات پر ہو گا۔ یوکرین بحران کے حل کو ترجیح دینے سے امریکہ کی اسٹریٹجک توجہ یوریشیا سے بحرالکاہل کی طرف منتقل ہو سکتی ہے اور یوریشیا میں تصادم کے امکانات کم ہو سکتے ہیں۔ عالمی سیاست میں وسطی ایشیا کا حتمی کردار اور مقام اس بات پر منحصر ہوگا کہ اس خطے کو نئی امریکی انتظامیہ کی ترجیحات میں کیا مقام ملے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے