غزہ میں صیہونی دشمن کے خلاف حماس کی حکمت عملی

صیہونی حکمرانوں کی جانب سے غزہ پر فوجی قبضہ کر کے حماس کو پوری طرح ختم کر دینے کی دھمکیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیلی وزیر جنگ اسرائیل کاتس نے تازہ ترین بیان میں ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ اگر حماس تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد نہیں کرتی تو غزہ پوری طرح تباہ کر دیا جائے گا۔ صیہونی وزیر جنگ کی اس دھمکی کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج نے غزہ کے شمال اور جنوب میں فوجی جارحیت شروع ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ یاد رہے غاصب صیہونی رژیم نے 18 مارچ کی صبح یکطرفہ طور پر جنگ بندی معاہدے سے دستبردار ہو کر غزہ پر وسیع فضائی حملے انجام دیے جن میں 700 فلسطینی شہری شہید اور سینکڑوں دیگر زخمی ہو گئے تھے۔ دوسری طرف فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے قریبی ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ اسلامی مزاحمت غاصب صیہونی رژیم کے جارحانہ اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ حماس کے ذرائع نے کہا کہ 470 روزہ غزہ جنگ کے دوران انہیں بہت قیمتی تجربات حاصل ہوئے ہیں جن کی روشنی میں اس بار انہوں نے صیہونی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف قسم کی حکمت عملی اور منصوبے تیار کر رکھے ہیں۔
آگاہ ذرائع نے بتایا: "اسلامی مزاحمت نے ایک لچک دار اور موثر حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران صیہونی دشمن کے خلاف جنگ میں حاصل ہونے والے تجربات کا نچوڑ ہے۔ اسلامی مزاحمت جنگ کو اپنے حق میں پلٹانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ اسلامی مزاحمت نے اپنے مجاہدین کو چھوٹے چھوٹے گروپس میں تقسیم کر دیا ہے جو صیہونی دشمن کو غزہ کے مختلف علاقوں میں گوریلا حملوں کا نشانہ بنائیں گے اور اس کے بعد دشمن کے خلاف بڑی کاروائی کا آغاز کر دیا جائے گا۔” رپورٹس کے مطابق آنے والے دنوں میں صیہونی دشمن کو غزہ میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا جو روایتی انداز سے ہٹ کر مختلف نوعیت کی ہو گی۔ فلسطینی مجاہدین چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی صورت میں صیہونی دشمن کو گھات لگا کر نشانہ بنائیں گے اور ایسے علاقوں سے ان پر حملہ ور ہوں گے جن کی انہیں توقع نہیں ہے۔ جنگ بندی سے کچھ ماہ پہلے بھی فلسطینی مجاہدین نے غزہ کے شمال میں خاص طور پر بیت حانون شہر میں ایسی کاروائیاں انجام دی تھیں اور صیہونی دشمن کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ان کاروائیوں میں صیہونی فوج کا بڑا جانی نقصان ہوا تھا۔
اسلامی مزاحمت کے قریبی ذرائع اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ فلسطین میں مزاحمتی گروہ صیہونی فوج کے نئے چیف آف آرمی اسٹاف ایال زامیر کی جانب سے غزہ پر دوبارہ فوجی جارحیت کی توقع کر رہے تھے اور اس کے لیے پوری طرح تیار تھے۔ غزہ جنگ کے دوران بھی فلسطینی مجاہدین کی جانب سے گھات لگا کر حملہ کرنے اور دھماکہ خیز بوبی ٹریپس لگانے کا تجربہ انتہائی کامیاب رہا تھا۔ قریبی ذرائع نے کہا: "اسلامی مزاحمتی گروہ اس سے پہلے بھی غاصب صیہونی رژیم کے ناکارہ بموں اور میزائلوں کو خود صیہونی فوج کو نشانہ بنانے کے لیے بروئے کار لاتے آئے ہیں اور کئی مواقع پر کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔” ان ذرائع کے بقول فلسطینی مجاہدین نے گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران جنگ میں صیہونی فوج کی حکمت عملیوں کا گہرا جائزہ لیا ہے اور دشمن کی کمزوریوں سے پوری طرح واقف ہو چکے ہیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ صیہونی فوجیوں کا مورال بہت حد تک گر چکا ہے جس کی وجہ طویل المیعاد اور لاحاصل تھکا دینے والی جنگ ہے۔ صیہونی رژیم فوجی طاقت کے ذریعے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پائی اور آئندہ بھی حاصل نہیں کر پائے گی۔
اسلامی مزاحمت سے قریبی ذرائع نے کہا: "صیہونی فوجی ادارے نیتن یاہو کی کابینہ سے تنگ آ چکے ہیں اور وہ لاحاصل جنگ میں اپنے فوجی بھیجنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دوسری طرف فلسطینی مجاہدین اپنا اسلحہ خود تیار کر رہے ہیں اور اس کی مدد سے غاصب صیہونی فوجیوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ فلسطینی مجاہدین نے جنگ کے دوران کم رینج والے میزائلوں کی مدد سے دشمن کے ٹھکانوں کو بارہا نشانہ بنایا ہے اور صیہونیوں کو خوفزدہ کیا ہے۔” عبری زبان میں شائع ہونے والے صیہونی اخبار ہارٹز نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ پر مکمل فوجی قبضہ کر کے وہاں مارشل لاء لگانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ یہ اخبار مزید لکھتا ہے: "ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت بھی قیدیوں کے تبادلے کے لیے نیتن یاہو کابینہ پر دباو ڈالنا نہیں چاہتی اور غزہ میں وسیع فوجی آپریشن کی حمایت کرے گی۔ اسرائیل محدود پیمانے پر قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کرنا چاہتا ہے لیکن مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں وسیع فوجی آپریشن کی تیاری کر رہا ہے۔ نیتن یاہو شاباک کے سربراہ کی برطرفی کے بعد پیدا ہونے والے فوجی اور سیاسی بحران کو اپنے خلاف عدالتی کاروائی موخر کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔”