جولانی کے خلاف شامی جوانوں کا قیام

1-6.jpg

 

 

 

شام میں صدر بشار اسد حکومت کو سرنگون ہوئے ٹھیک تین ماہ گزر چکے ہیں۔ اس وقت شام میں جگہ جگہ عوامی احتجاج جاری ہے جبکہ احمد الشرع رژیم سے وابستہ مسلح عناصر اور علوی مزاحمت کاروں کے درمیان مسلح جھڑپیں بھی جاری ہیں۔ شام کی موجودہ حکومت نے احتجاج کرنے والے شہریوں کے خلاف طاقت کا کھلا استعمال جاری رکھا ہوا ہے اور مختلف شہروں میں کرفیو نافذ کر کے عوام کو ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں اب تک دسیوں عام شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ علوی فرقے کے شہریوں کے خلاف طاقت کا استعمال اور ان کی نسل کشی شام میں بشار اسد حکومت کی سرنگونی کے بعد سے ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے۔ پکڑ دھکڑ اور قتل و غارت سے تنگ آ کر علوی اسلامی کونسل نامی تنظیم نے احمد الشرع رژیم کے خلاف وسیع عوامی احتجاج کی کال دے دی جس کے بعد شام کے کئی شہروں میں شدید عوامی احتجاج کا آغاز ہو گیا۔ دو دن پہلے لاذقیہ اور طرطوس میں سینکڑوں شہریوں نے احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں کا رخ کیا اور ابو محمد الجولانی کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔

 

دوسری طرف الجولانی رژیم سے وابستہ سیکورٹی ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ حکومت مخالف مسلح گروہوں نے لاذقیہ کے قریب واقع علاقے بیت عانا میں حکومتی فورسز پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایک فوجی ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے۔ اسی طرح شام کے شہر السویداء میں بھی جولانی رژیم کے خلاف عوامی مظاہرے منعقد ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ اس لیے بھی توجہ کا مرکز قرار پا چکا ہے کہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اسے شام سے علیحدہ کر کے ایک خودمختار ریاست بنانے کی سازش میں مصروف ہے۔ مختلف ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق شام کی نگران حکومت نے صوبہ لاذقیہ میں کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اسی طرح صوبہ لاذقیہ کے سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ جمعہ کے دن صبح دس بجے سے اس صوبے میں ہر قسم کی آمدورفت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس سے پہلے بھی عوامی احتجاج کے پیش نظر شام کے مغربی علاقوں اور طرطوس شہر میں کرفیو نافذ کیا گیا تھا جبکہ کل صرف ایسے افراد کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت دی گئی تھی جو نماز جمعہ میں شرکت کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

 

شام کے شمال مشرق میں واقع صوبہ حلب بھی کل جمعہ کے دن حکومت مخالف عوامی مظاہروں کی لپیٹ میں تھا۔ ایسے حالات میں شام میں کچھ نئے مسلح گروہ بھی تشکیل پا چکے ہیں جنہوں نے اپنا مقصد محمد الجولانی کی سربراہی میں موجودہ رژیم کا خاتمہ بیان کیا ہے۔ ان میں سے اہم گروہ "کوسٹ شیلڈ بریگیڈ” اور "فوجی کونسل برای آزادی شام” ہیں جن کی سربراہی شام آرمی کا ایک سابق بریگیڈیئر کر رہا ہے۔ ڈاکیومنٹری تیار کرنے والے تحقیقاتی ادارے العربی المشرقی کے ڈائریکٹر الیاس المر نے العہد نیوز ویب سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے احمد الشرع کی حکومت کو ایک انقلاب کی بجائے پہلے سے منصوبہ بندی کے تحت بغاوت قرار دیا ہے۔ انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ شام کے مختلف شہروں خاص طور پر علوی نشین اور شیعہ اکثریتی علاقوں میں جولانی رژیم کے مجرمانہ اقدامات اور انتقامی کاروائیاں وسعت اختیار کر گئی ہیں کہا: "اس وقت شام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس ظلم و ستم کا فطری ردعمل ہے جس سے شام کی قوم روبرو ہے۔ یہ عوامی احتجاج پہلا احتجاج نہیں ہے لیکن گذشتہ احتجاج کی نسبت زیادہ شدید ہے۔”

 

موصولہ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت مخالف گروہوں نے شام کے مغرب میں واقع سطامو فوجی ایئرپورٹ پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ ایئرپورٹ وہ ہے جہاں سے گذشتہ دو دن کے دوران جولانی رژیم کے گماشتوں نے ساحلی صوبوں میں عوام پر حملے کیے تھے۔ اسی طرح شام کے مزاحمتی گروہ مزاحمتی کوہستان بریگیڈ نے اعلان کیا ہے کہ وہ شام کے مغرب میں لبنان کی سرحد کے قریب تمام علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے جن میں صوبہ طرطوس کا علاقہ الشیخ بدر بھی شامل ہے۔ مختلف ذرائع ابلاغ کے بقول شام کے حکومت مخالف گروہ لاذقیہ بندرگاہ میں نیوی ہیڈکوارٹر پر قبضہ کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔ سوشل میڈیا میں جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں حکومت مخالف سرگرم رکن یہ کہتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ: "جولانی نے اپنے وعدوں کے برعکس مختلف مسلح گروہوں کو ختم نہیں کیا اور یہ دہشت گرد ہم علویوں کو قتل کر دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ کیا دنیا اسی طرح شام کے عام شہریوں کے قتل عام کا تماشہ دیکھتی رہے گی؟” جولانی رژیم سے وابستہ مسلح عناصر نے شام کے ساحلی علاقوں میں عام شہریوں کا قتل عام جاری رکھا ہوا ہے۔

 

ایک اندازے کے مطابق کل تک جولانی کے گماشتوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے عام شہریوں کی تعداد 100 کے قریب ہے۔ شام کے مغربی علاقوں میں مسلح جھڑپوں کے دوران جولان کے وزیر دفاع مرہف ابوقصرہ کا بیٹا بھی ہلاک ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا میں جاری ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جولانی رژیم کے گماشتے خواتین اور بوڑھے شہریوں کو بھی قتل کر رہے ہیں۔ جولانی رژیم احتجاج کرنے والے عوام کے خلاف توپیں، ٹینک اور جنگی ہیلی کاپٹر بھی استعمال کر رہی ہے۔ شام میں صدر بشار اسد حکومت کی سرنگونی کے بعد سے غاصب صیہونی رژیم نے بھی فوجی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے اور گولان ہائٹس، صوبہ درعا اور صوبہ قنیطرہ کے وسیع علاقوں پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے۔ صوبہ قنیطرہ میں جباثا، الخشب اور اوفائیا دیہاتوں کا رابطہ کاٹ دیا گیا ہے جبکہ وہاں صہیونی فوج نے ایک چیک پوسٹ بھی قائم کر دی ہے۔ صوبہ درعا کے شہر الحارہ کے شہریوں نے صیہونی فوج کے خلاف مزاحمت کرنے کا اعلان کیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے