حقانیت پر دلیل؛ جنازے ؟

nas.jpg

تاریخ انسانوں کے کارنامے، قربانیاں اور اصولوں کی پاسداری محفوظ رکھتی ہے۔ بعض شخصیات تاریخ کے صفحات میں محض ایک باب نہیں، بلکہ وہ ایک مکمل تحریک اور نظریہ بن کر امر ہو جاتی ہیں، ان کے افکار، جدوجہد اور خدمات پر بحث کی جا سکتی ہے، ان کے نظریات کو جانچنے کے لیے دلائل دیئے جا سکتے ہیں؛ لیکن جب ان کی آخری منزل آتی ہے، جب ان کے جسدِ خاکی کے گرد انسانوں کا ہجوم اکٹھا ہوتا ہے تو وہ اجتماع ایک فیصلہ کُن گواہی بن جاتا ہے۔

چند برس قبل معروف صحافی حامد میر نے اپنے کالم "ایک جنازے کی گواہی” میں مولانا سمیع الحق مرحوم کے جنازے کو حقانیت کی دلیل قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ "امام احمد بن حنبل نے فرمایا تھا کہ ہمارے جنازے ہماری حقانیت کا فیصلہ کریں گے۔ جب اُن کا انتقال ہوا تو بغداد میں کثیر تعداد اُن کے جنازے میں شریک ہوئی اور اس جنازے کی شان دیکھ کر ہزاروں غیر مسلموں نے اسلام قبول کر لیا۔ تین نومبر کو اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق مرحوم کے جنازے میں شریک متعدد علماء نے مجھے امام احمد بن حنبل کا قول یاد دلایا اور کہا کہ یہ جنازہ دیکھ لیں اور مولانا سمیع الحق کی حقانیت کا فیصلہ کر لیں۔۔۔ یہ وہ جنازہ تھا جس نے امام احمد بن حنبل کے قول کو سچا ثابت کیا۔”

حامد میر کے کالم نے پاکستان میں ایک نئی بحث چھیڑ دی کہ کسی شخصیت کی سچائی اور مقبولیت کا اصل پیمانہ اس کی زندگی کے بعد نظر آتا ہے، جب وہ خود تو دنیا میں موجود نہیں ہوتا ؛لیکن اس کے جنازے میں شامل لاکھوں لوگ اس کے نظریے، اس کی قربانیوں اور اس کی جدوجہد کی گواہی دے رہے ہوتے ہیں۔ اگر اس اصول کو معیار بنایا جائے تو تاریخِ معاصر میں تین ایسے جنازے ہیں جو امام احمد بن حنبل کے قول کو مزید واضح کرتے ہیں، شہید قاسم سلیمانی، شہید ابراہیم رئیسی اور شہید سید حسن نصر اللہ کا جنازہ۔

یہ تینوں شخصیات نہ صرف اپنے اپنے ممالک کی سرحدوں تک محدود نہیں تھیں بلکہ عالمی سطح پر ایک مزاحمتی نظریے کی علامت تھیں۔ یہ صرف کسی سیاسی جماعت یا کسی عسکری گروہ کے قائدین نہیں تھے بلکہ وہ استعمار کے خلاف حریت، مزاحمت اور آزادی کی علامت بن چکے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے طاقت کے توازن کو چیلنج کیا، دُنیوی خداؤں کو للکارا اور مظلوموں کے حق میں آواز بلند کی۔

شہید قاسم سلیمانی، جنہیں دنیا "محورِ مزاحمت” کا ہیرو قرار دیتی ہے، وہ صرف ایران کے نہیں بلکہ پورے خطے کے استعماری منصوبوں کو ناکام بنانے والے عظیم سپاہی تھے۔ ان کے جنازے میں ایران، عراق اور خطے کے مختلف ممالک سے لاکھوں افراد نے شرکت کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ان کی شہادت نے انہیں مزید زندہ کر دیا ہے۔ وہ ایک فوجی کمانڈر سے زیادہ ایک نظریے کا استعارہ تھے۔ ان کا جنازہ ایک عوامی ریفرنڈم تھا، جو اس بات کا اعلان کر رہا تھا کہ وہ دہشت گرد نہیں، بلکہ وہ عالمی دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی مزاحمتی قوّت تھے۔

شہید ابراہیم رئیسی، جو ایران کے صدر ہونے کے باوجود ایک مزاحمتی سپاہی کی حیثیت رکھتے تھے، ان کی شہادت کے بعد ایران کے گلی کوچوں میں لاکھوں افراد نے اشکوں کے ساتھ انہیں الوداع کیا۔ ان کی شخصیت عالمی استعمار کے خلاف جدوجہد اور اسلامی وقار کی علامت تھی، اور ان کے جنازے نے ثابت کر دیا کہ ایک لیڈر کس طرح اپنی قوم کے دلوں میں بسا رہتا ہے۔

اور پھر شہید سید حسن نصراللہ کا جنازہ، یہ وہ جنازہ ہے جس میں لبنان کے ہر شہر، ہر گلی اور ہر قبیلے سے لوگ امڈ آئے ہیں ۔ اس جنازے میں صرف لبنان کے عوام ہی نہیں، بلکہ ایران و عراق سمیت دنیا بھر سے سامراج و استعمار مخالف تحریکوں سے وابستہ افراد بھی شریک ہیں۔ یہ جنازہ ایک عہد کی تجدید ہے، ایک نظریے کی بقا کی دلیل ہے۔ لبنانی عوام اور دنیا بھر کے آزادی پسند لوگ اس جنازے میں شریک ہو کر یہ پیغام دے رہے ہیں کہ حق کے راستے میں جان دینے والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ یہ منظر کسی ایک شخصیت سے محبت کا اظہار نہیں، بلکہ ایک اصول کے ساتھ وفاداری کی علامت ہے۔

جنازے ہمیشہ طاقت کی علامت نہیں ہوتے، بعض اوقات وہ مظلومیت، حقانیت اور سچائی کی آخری دلیل بن جاتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کا جنازہ وہ مظلوم جنازہ تھا جس میں شرکت نہ ہو سکی؛ لیکن کربلا کے شہدا کی راہ پر چلنے والوں کے جنازے آج بھی لاکھوں لوگوں کی گواہی بن رہے ہیں۔ سید حسن نصر اللہ اور سید ہاشم صفی الدین کے جنازے میں نومولود بچوں کو مائیں اٹھا کر لا رہی ہیں ، یہ محض ایک رسم نہیں ہے بلکہ یہ ایک عہد ہے کہ جب تک حق و باطل کی جنگ جاری ہے، جب تک استعماری طاقتیں ظلم کے منصوبے بناتی رہیں گی، تب تک ان کا مقابلہ کرنے والے پیدا ہوتے رہیں گے۔

یہ جنازے صرف چند دنوں کے اجتماعات نہیں، بلکہ یہ تاریخ کے فیصلے ہیں۔ یہ وہ دلائل ہیں جو کسی عدالت، کسی میڈیا یا کسی عالمی تنظیم سے نہیں، بلکہ براہِ راست عوام کے دلوں سے نکل کر دنیا کے سامنے آتے ہیں۔ یہ جنازے گواہی دیتے ہیں کہ حق اور باطل کی جنگ میں حق کی جیت یقینی ہے، شہدا کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ نیز حسینیت پر چلنے والوں کے جنازے ثابت کریں گے کہ حق کا راستہ زندہ ہے، مزاحمت کی مشعل کبھی بجھائی نہیں جا سکتی۔

یہ جنازے صرف کسی شخصیت کی موت کا اعلان نہیں ، بلکہ ایک تحریک کے تسلسل کا مظہر ہے۔ دشمن سمجھتا ہے کہ مزاحمت کے قائدین کو قتل کر کے وہ اس جدوجہد کو ختم کر سکتا ہے؛ لیکن یہ جنازے بتاتے ہیں کہ حق کے علمبردار صرف موت کے بعد مزید طاقتور ہو جاتے ہیں۔حامد میر نے اپنے کالم میں امام احمد بن حنبل کے قول کو مولانا سمیع الحق کے جنازے پر لاگو کیا؛ لیکن اگر یہ اصول سچا ہے، تو پھر ہمیں تاریخِ معاصر کے ان تین عظیم جنازوں کو بھی اسی کسوٹی پر پرکھنا ہوگا۔

یہ جنازے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ حق اور باطل کی جنگ میں حق کے جنازے ہمیشہ زیادہ باشکوہ ہوتے ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے تاریخ بار بار دہراتی ہے اور یہی وہ پیغام ہے جو ان جنازوں میں شریک لاکھوں افراد نے دیا ہے کہ حق ہمیشہ زندہ رہے گا اور حق پر چلنے والے ہمیشہ آگے بڑھتے رہیں گے۔یہ جنازے ہمیں بتا رہے ہیں کہ امام احمد بن حنبل کے مطابق: حقانیت پر دلیل جنازے ہوتے ہیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے