یونیورسٹیوں میں فوجی مداخلت: ایک تقابلی تجزیہ

لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں پاکستانی فوج کے ترجمان کا جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ لیکن لمز (LUMS) میں جو کچھ ہوا، اسے ایک مثبت اشارہ سمجھنا چاہیے اور مسلح افواج کے لیے اسے ایک یاددہانی سمجھنا چاہیے کہ وہ کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک قومی ادارہ ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو ایک عام جلسہ کرنے کی آزادی نہیں ہے۔افواج کو اپنی پالیسیوں کی پذیرائی یا نوجوانوں سے غیر سیکیورٹی پالیسیوں کے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ معیشت، نظریاتی نقطہ نظر، خواتین کا مقام، یا سیاسی جماعتوں کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے، اس پر سٹوڈنٹس سے بات چیت ان کا دائرہ کار نہیں ہے۔ اور خاص کر ایک ایسے ماحول میں جب حزب اختلاف کی جماعت کے رہنما قید ہیں اور اسے سیاسی جلسے منعقد کرنے کی آزادی نہیں تو ایسے میں فوجی افسران کا یونیورسٹیوں میں انٹر ایکشن مثبت انداز سے نہیں دیکھا جائے گا۔
میں نے دنیا کی تین اہم افواج کے افسران کے اپنے ممالک کے تعلیمی اداروں میں سرگرمیوں اور پاکستانی فوج کی ایسی سرگرمیوں سے موازنے کے لیے کچھ سرچ کی۔ اگرچہ دنیا کے مختلف ممالک میں فوج اور یونیورسٹیوں کے درمیان تعلقات اور روابط کا رجحان پایا جاتا ہے، لیکن اس کی نوعیت ہر ملک میں نمایاں طور پر مختلف ہوتی ہے۔ امریکہ، اسرائیل اور انڈیا میں، یہ انٹر ایکشن عام طور پر تعلیمی اور سٹریٹجک بحثوں پر مرکوز ہوتے ہیں، جن کا محور تحقیق اور تکنیکی ترقی ہوتی ہے۔اس کے برعکس، پاکستان میں فوج کی یونیورسٹیوں میں مداخلت زیادہ تر سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے نظر آتی ہے، جس میں عوامی رائے کو متاثر کرنے اور فوجی پالیسیوں کو جواز فراہم کرنے کی براہ راست کوششیں شامل ہیں۔ یہ فرق سویلین-فوجی تعلقات اور تعلیمی اداروں کے کردار میں وسیع فرق کو اجاگر کرتا ہے۔ دوسرے ملکوں میں یہ انٹر ایکشن آزاد ماحول کے ساتھ ہوتا ہے، لیکن پاکستان میں فوج پر تنقید آپ کو غدار بنا سکتی ہے۔
مختلف ممالک میں فوج اور یونیورسٹیوں کا تعلق
فوجی اداروں اور یونیورسٹیوں کے درمیان تعلقات دنیا کے مختلف ممالک میں نمایاں فرق رکھتے ہیں، جو ہر قوم کے مخصوص سیاسی، تعلیمی، اور فوجی کلچر کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگرچہ امریکہ، اسرائیل اور انڈیا میں فوجی افسران یونیورسٹیوں کے مذاکروں میں شریک ہوتے ہیں، ان کا کردار پاکستان کی فوج کی حکمت عملی سے نمایاں طور پر مختلف ہے۔ جمہوری ممالک میں، فوجی حکام زیادہ تر تعلیمی اور سٹریٹجک مباحثوں پر توجہ دیتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
امریکی یونیورسٹیوں میں فوج کا کردار
امریکہ میں، فوج کا تعلیمی اداروں کے ساتھ ایک مستحکم تعلق پایا جاتا ہے، خاص طور پر ان اداروں کے ساتھ جو دفاعی تحقیق میں مہارت رکھتے ہیں، جیسے کہ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT)، سٹینفورڈ یونیورسٹی اور ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی۔ ریزرو آفیسرز ٹریننگ کور (ROTC) پروگرام کے ذریعے فوجی افسران سٹوڈنٹس کے ساتھ براہ راست رابطے میں آتے ہیں، جہاں انہیں قیادت کی تربیت اور فوجی کیریئر کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ فوج کے اعلیٰ افسران کبھی کبھار تھنک ٹینکس میں شرکت کرتے ہیں یا یونیورسٹیوں میں گیسٹ لیکچرز دیتے ہیں، تاہم یہ سرگرمیاں بنیادی طور پر تعلیمی اور سٹریٹجک نوعیت کی ہوتی ہیں اور ان کا مقصد کسی مخصوص فوجی پالیسی کی حمایت حاصل کرنا نہیں ہوتا۔
اسرائیل میں فوج اور تعلیمی ادارے
اسرائیل میں فوجی ادارے اور تعلیمی مراکز کے درمیان قریبی تعلق موجود ہے، خاص طور پر سیکیورٹی، انٹیلیجنس، اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں۔ تل ابیب یونیورسٹی اور ہَیبریو یونیورسٹی آف یروشلم جیسے ادارے فوجی ماہرین کو سٹریٹجک امور پر بات چیت کے لیے مدعو کرتے ہیں۔ اس تعاون کا دائرہ کار تکنیکی ایجادات، سائبر سیکیورٹی، اور دفاعی نظام تک پھیلا ہوا ہے، جو اسرائیل کی دفاعی تحقیق میں بھاری سرمایہ کاری کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم، ان اداروں میں فوج کی موجودگی عمومی طور پر تکنیکی اور تعلیمی نوعیت کی ہوتی ہے اور اس کا مقصد عوامی رائے کو متاثر کرنا نہیں ہوتا۔
انڈیا میں فوجی افسران کی یونیورسٹیوں میں شرکت
انڈیا میں فوجی افسران کبھی کبھار جواہر لال نہرو یونیورسٹی (JNU)، انڈین انسٹیٹیوٹس آف ٹیکنالوجی (IITs)، اور انڈین انسٹیٹیوٹس آف مینجمنٹ (IIMs) جیسے اداروں میں شرکت کرتے ہیں۔ یہ بات چیت عام طور پر قومی سلامتی، سٹریٹجک امور، اور تحقیقی اشتراک پر مرکوز ہوتی ہے۔ نیشنل ڈیفنس اکیڈمی (NDA) اور دیگر فوجی تھنک ٹینکس بھی سویلین یونیورسٹیوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ تاہم انڈین یونیورسٹیوں میں فوجی افسران کی موجودگی عمومی طور پر تعلیمی نوعیت کی ہوتی ہے، اور وہ اکثر اوقات مخصوص فوجی پالیسیوں یا سیاسی نظریات کی تشہیر نہیں کرتے۔
پاکستان میں فوجی مداخلت: ایک منفرد معاملہ
پاکستان میں فوج اور یونیورسٹیوں کے درمیان تعلقات امریکہ، اسرائیل، اور انڈیا کے مقابلے میں منفرد ہیں۔ فوج کے سربراہ بذات خود یا انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (ISPR) کے اہلکار نہ صرف دفاعی اور سیکیورٹی امور پر گفتگو کے لیے یونیورسٹیوں کا رخ کرتے ہیں بلکہ عوامی رائے کو متاثر کرنے اور اختلافِ رائے کو دبانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔حالیہ مثالوں میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں ISPR کے ڈائریکٹر جنرل کے دورے نے واضح کیا کہ کس طرح فوج اپنی پالیسیوں کو درست ثابت کرنے اور طلبہ کی سوچ کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ دیگر ممالک میں ایسی براہ راست مداخلت کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے اور اسے ایک آزاد تعلیمی ماحول کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔
اہم فرق: سیاسی جماعت کے طور پر فوج کا کردار
پاکستانی فوج اور امریکہ، اسرائیل، اور انڈیا کی افواج کے درمیان ایک بڑا فرق پاکستانی فوج کا غالب سیاسی کردار ہے۔ ان تین ممالک میں مسلح افواج غیر جانبدار رہتی ہیں اور کسی سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت کے خلاف براہ راست سیاسی مقابلے میں حصہ نہیں لیتیں ہیں۔ ان ملکوں کی افواج یا اس سے وابستہ اداروں پر سیاسی جوڑ توڑ یا الیکشن رگگنگ کا کوئی الزام نہیں ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان کی فوج طویل عرصے سے ملکی سیاست میں گہرے طور پر ملوث رہی ہے، اور اکثر مواقع پر اسے ایک دیگر سیاسی جماعت یا جماعتوں کے مقابلے میں ایک سیاسی جماعت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، نہ کہ ایک غیر جانبدار سیکورٹی ادارے کے طور پر۔ اس کے برعکس، امریکہ، اسرائیل، اور انڈیا میں سیاسی معاملات سیاسی جماعتوں کا دائرہ کار ہیں، جبکہ مسلح افواج پیشہ ورانہ غیر جانبداری برقرار رکھتی ہیں۔
یونیورسٹیوں میں فوجی انٹر ایکشن ایک عالمی رجحان ہے، لیکن اس کی نوعیت ہر ملک میں مختلف ہے۔ امریکہ، اسرائیل، اور بھارت میں، یہ انٹر ایکشن تعلیمی اور تحقیقی نوعیت کے ہوتے ہیں، جبکہ پاکستان میں فوج کی مداخلت زیادہ تر سیاسی، نظریاتی، اور عوامی رائے سازی پر مرکوز نظر آتی ہے۔ اس فرق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مختلف ممالک میں سویلین-فوجی تعلقات اور تعلیمی اداروں کے کردار میں کس قدر فرق پایا جاتا ہے۔ جب معاشرے کی آزادیوں اور اختلاف رائے کے حق کو ایجنسیوں سے خطرہ ہو گا تو وہاں ایک مثبت ڈائیلاگ کی فضا پیدا نہیں ہو گی۔اگر دونوں طرف کے افراد کو اظہارِ خیال کی مکمل آزادی ہو تو اسے حقیقی مکالمہ کہا جا سکتا ہے، ورنہ یہ محض یک طرفہ وعظ بن کر رہ جائے گا! اس کے علاوہ ایسا بھی محسوس نہ ہو کہ ڈی جی آئی ایس پی آر انٹر ایکشن کریں اور انٹیلیجنس ایجنسیاں اختلافِ رائے کرنے والے سٹوڈنٹس یا آزادیوں کے حامی اساتذہ پر زندگی تنگ کر دیں۔