سانحہ بلدیہ کیس: حماد صدیقی کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سے رجوع کرنے کا حکم

سندھ ہائی کورٹ نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کراچی کے کیس میں مفرور ملزم حماد صدیقی کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سے رجوع کرنے کا حکم دے دیا۔نیوز کے مطابق عدالت عالیہ سندھ نے مفرور ملزم خرم نثار سے متعلق محکمہ داخلہ سندھ کے فوکل پرسن کو بھی آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔سندھ ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل کی جانب سے بتایا گیا کہ تقی حیدر، حماد صدیقی اور خرم نثار مفرور ہیں، تقی حیدر سے متعلق متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کو کاغذات بھجوا دیے ہیں۔فاضل عدالت نے ہدایت کی کہ مفرور ملزم حماد صدیقی کی گرفتاری کے لیے انٹرپول کی مدد لی جائے، ملزم کو انٹرپول کے حکام سے رجوع کرکے گرفتار کیا جائے۔
یاد رہے کہ 11 ستمبر 2023 کو سندھ ہائی کورٹ نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں ملزمان عبدالرحمٰن بھولا اور زبیر چریا کی سزائے موت کے خلاف اپیلیں مسترد کردی تھیں۔سندھ ہائی کورٹ نے سانحہ بلدی فیکٹری کے مجرموں کو سزا دینے کے خلاف اپیلوں پر محفوظ فیصلہ سنایا تھا، عدالت نے عبدالرحمٰن بھولا اور زبیر چریا کی سزائے موت کے خلاف اپیلیں مسترد کرتے ہوئے ملزمان کی پھانسی کی سزا برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔عدالت نے عمر قید کی سزا پانے والے چاروں ملزمان شاہ رخ، فضل، ارشد محمود، علی محمد کی سزا کے خلاف اپیلیں منظور کر لی تھیں۔علاوہ ازیں عدالت نے رہنما ایم کیو ایم رؤف صدیقی کے علاوہ عبدالستار، اقبال ادیب خانم اور عمر حسن کی بریت کے خلاف سرکار کی اپیل بھی مسترد کر دی تھی۔
کیس کا پس منظر
خیال رہے کہ 11 ستمبر 2012 کو کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں کپڑے کی فیکٹری میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 259 افراد جھلس کر جاں بحق اور 300 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔سانحے کی تحقیقات کے لیے رینجرز اور پولیس سمیت دیگر اداروں کے افسران پر مشتمل 9 رکنی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی، جس نے اپنی رپورٹ سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرائی تھی۔
سانحہ بلدیہ ٹاؤن کیس میں فروری 2015 میں ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب رینجرز کی جانب سے سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں ایم کیو ایم کو اس واقعے میں ملوث قرار دیا گیا تھا۔جے آئی ٹی رپورٹ میں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما رؤف صدیقی، عبدالرحمٰن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا سمیت 11 ملزمان کو فیکٹری میں آگ لگانے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔پراسیکیوشن کے مطابق مشتبہ ملزمان نے اس وقت کے ایم کیو ایم کراچی کی تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی کی ہدایات پر عمل کیا، کیونکہ فیکٹری کے مالکان نے بھتے کی رقم کی ادائیگی سے انکار کردیا تھا۔
ابتدائی طور پر ثبوتوں کی عدم موجودگی پر پولیس نے زبیر چریا کو رہا کردیا تھا البتہ عبدالرحمٰن عرف بھولا کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے قلمبند کرائے گئے بیان میں انہوں نے زبیر کو بھی شریک جرم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے زبیر اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ فیکٹری کو آگ لگانے کا کام انجام دیا جس کے بعد پولیس نے زبیر کو دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔علاوہ ازیں اپریل 2020 میں کیس کی سماعت کے دوران ایک اہم ترین گواہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوا اور واقعے میں ملوث ایک ملزم زبیر عرف چریا کو شناخت کیا گیا تھا۔اکتوبر 2020 میں ایم کیو ایم کے تنظیمی کمیٹی کے سابق سیکٹر انچارج رحمٰن بھولا اور پارٹی کارکن زبیر عرف چریا نے انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے دی گئی سزائے موت کو چیلنج کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ میں الگ الگ اپیلیں دائر کی تھیں۔
انسداد دہشت گردی عدالت نے 2020 میں 2 ملزمان (ایم کیوایم کے سابق سیکٹر انچارج عبدالرحمٰن بھولا اور زبیر چریا) کو سزائے موت، جب کہ 4 ملزمان (فیکٹری ملازم ملزم شاہ رخ، فضل، ارشد محمود اور علی محمد) کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔زبیر چریا، عبدالرحمٰن بھولا، علی محمد، فضل محمد، شاہ رخ اور ارشد محمود نے سزا کے خلاف اپیلیں دائر کر رکھی تھیں جبکہ سرکار نے 4 ملزمان (رؤف صدیقی، عبدالستار، اقبال ادیب خانم اور عمر حسن) کی بریت کے خلاف اپیل دائر کی تھی، جسے مسترد کردیا گیا تھا۔