جنین کیمپ میں اسرائیلی آپریشن، فلسطینیوں کو ’مستقل نقل مکانی‘ کا خدشہ

4577319-9262253.jpg

اسرائیل نے مغربی کنارے میں واقع پناہ گزینوں کے جنین کیمپ کو ملیا میٹ کر دیا ہے اور اس کی جگہ پر سڑکوں کی تعمیر کا کام شروع ہے جس سے فلسطینیوں میں ایک بار پھر مستقل نقل مکانی کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ جنگ بندی معاہدہ طے پانے کے ایک دن بعد ہی اسرائیل نے مغربی کنارے میں آپریشن کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں جنین اور قریبی شہر طولکرم سے کم از کم 40 ہزار فلسطینی اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

جنین میونسپلٹی کے ترجمان بشیر مطاحن نے شمالی غزہ کے پناہ گزین کیمپ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جنین میں وہی سب دہرایا جا رہا ہے جو جبالیہ میں ہوا تھا۔غزہ میں جنگ شروع ہونے کے چند ہفتوں بعد اسرائیلی فوج نے الجبالیہ پناہ گزین کیمپ کو خالی کروا دیا تھا۔انہوں نے کہا کہ کم از کم 12 بلڈوزرز کی مدد سے گھروں اور انفراسٹرکچر کو مسمار کیا جا رہا ہے جہاں 1948 کی جنگ کے نتیجے میں بےگھر ہونے والے فلسطینی کئی سالوں سے پناہ لیے ہوئے تھے۔

ترجمان بشیر مطاحن نے کہا کہ اسرائیلی فوج کی انجینیئرنگ ٹیموں کو کام کرتے اور طویل قیام کی تیاریاں کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔اسرائیل کے وزیر دفاع نے اتوار کو کہا تھا کہ فوج کو ’طویل مدتی قیام‘ کی تیاری کرنے کو کہا ہے اور کیمپ کو خالی کروا دیا گیا ہے اور وہاں کے رہائشیوں کو واپس آنے کی اجازت نہیں ہو گی۔بیس سال قبل دوسرے انتفادہ کے بعد مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کا یہ سب سے بڑا آپریشن ہے جو ایک ماہ سے جاری ہے۔

اسرائیلی تھنک ٹینک سے وابستہ سابق انٹیلی جنس اہلکار مائیکل ملشٹین کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کے دو کمیپوں نور شمس اور جنین کو آبادی سے خالی کروایا جا رہا ہے، ’مجھے نہیں معلوم کہ وسیع سٹریٹجی کیا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں ایسا ہوتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔اسرائیل نے آپریشن کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایرانی حمایت یافتہ عسکری گروپس بشمول حماس اور اسلامی جہاد کو متعدد بار جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی لیکن کئی دہائیوں سے وہ پناہ گزین کیمپوں میں مضبوطی سے اپنی جگہ بنائے بیٹھے ہیں۔

تاہم فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا حقیقی ارادہ یہی ہے کہ بڑے پیمانے پر آبادی کو مستقل نقل مکانی پر مجبور کیا جائے اور ان کے گھروں کو تباہ کر دیا جائے تاکہ اپنے علاقے میں رہنا ان کے لیے ناممکن ہو جائے۔
جنین کیمپ میں اپنے بچوں اور ان کی اولادوں کے ساتھ رہنے والے 85 سالہ حسن الکتیب کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل کیمپوں اور ان سے جڑی یادوں کو مٹا دینا چاہتا ہے، لوگوں کی یادداشت سے مہاجرین کا نام ہی مٹا دینا چاہتے ہیں۔یہ کیمپ دراصل 59 لاکھ فلسطینی مہاجرین کے لیے ایک علامت بن گئے ہیں جن کی حیثیت کئی دہائیوں بعد بھی نہیں تبدیل ہو سکی اور جو مسلسل اسرائیل کا ہدف رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے