غزہ مغرب کیلئے ہمیشگی ڈراونا خواب

1.jpg

 

 

نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کی ٹیم نے دنیا اور خاص طور پر مغربی ایشیا کے لیے جو منصوبے بنا رکھے ہیں اور اب تک اس بارے میں انہوں نے جو موقف اختیار کیا ہے اس میں غزہ کی پٹی اور فلسطین کے مستقبل کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کی بڑی وجہ گذشتہ تقریباً 471 دنوں کے دوران فلسطینی قوم کی بے مثال مزاحمت اور اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہے۔ فلسطین کے اسلامی مزاحمتی گروہوں نے غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ انتہائی پیچیدہ مذاکرات کو بھی بہت اعلی مہارت سے آگے بڑھایا ہے اور اسے اپنے مطالبات ماننے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ سے 20 لاکھ فلسطینیوں کو جبری طور پر جلاوطن کر دینے کا احمقانہ منصوبہ پیش کیا ہے۔ اس منصوبے کی بدولت پورا عالم اسلام فلسطینیوں کے حق میں متحد ہو گیا ہے جبکہ دنیا کے دیگر ممالک کے عوام بھی امریکہ کے خلاف فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانا شروع ہو گئے ہیں۔ ٹرمپ کا منصوبہ غزہ کے زمینی حقائق سے اس قدر دور ہے کہ حتی امریکہ کے اتحادی مغربی ممالک بھی سرکاری سطح پر اس کی مخالفت کا اظہار کر رہے ہیں۔ مغربی حکمران ٹرمپ کے منصوبے کو جھوٹا غرور قرار دے رہے ہیں۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:

 

1)۔ غزہ تاریخ کے بدترین ظلم و ستم اور مجرمانہ اقدامات کے مقابلے میں ڈٹ جانے کی زندہ مثال ہے۔ گذشتہ تقریباً پندرہ ماہ کے دوران غاصب صیہونی رژیم نے امریکہ کی بھرپور مدد اور پشت پناہی سے محدود رقبے کے حامل غزہ پر 1 لاکھ ٹن سے زیادہ بم اور میزائل برسائے ہیں جبکہ مظلوم فلسطینی قوم نے اس دوران 50 ہزار سے زیادہ شہید اور لاکھوں زخمی دے کر اپنی خودمختیار، آزادی اور وقار کا دفاع کیا ہے۔ یوں غزہ دنیا بھر میں مزاحمت کا رول ماڈل بن گیا ہے اور امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کو ذلت آمیز شکست کا مزہ چکھا چکا ہے۔

2)۔ امریکہ اور صیہونی رژیم اپنے مجرمانہ اقدامات کے باعث دنیا بھر میں رسوا ہونے کے باوجود اب غزہ سے فلسطینیوں کو جبری جلاوطن کر کے وہاں مغربی عوام کے لیے سیروسیاحت کی تفریح گاہ بنانے کے منصوبے بنا رہے ہیں تاکہ تاریخ اور دنیا والے گذشتہ پندرہ ماہ کے دوران ان کے مجرمانہ اقدامات کو بھول جائیں۔

3)۔ دوسری طرف غزہ لبرل ڈیموکریسی کی رسوائی اور اس کے جھوٹے دعووں کا بھانڈا پھوٹ جانے کا مظہر بھی بن چکا ہے۔ مغربی طاقتیں خود کو لبرل ڈیموکریسی کا بانی اور جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کا محافظ قرار دیتی تھیں لیکن غزہ جنگ کے بعد ان کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔

 

4)۔ غزہ اسی طرح مزاحمت، استقامت، مشکلات برداشت کرنے اور جائز حقوق کے لیے ڈٹ جانے میں دین اور دینی عقائد کے کردار کا مظہر بھی ہے۔ غزہ کی بقا کا مطلب مکتب اسلام کی بقا ہے۔ یہ وہ مکتب ہے جس کے خاتمے کے لیے صیہونی رژیم نے غزہ پر حملہ کیا تھا۔

5)۔ ٹرمپ نے غزہ سے متعلق اپنا منصوبہ پیش کر کے عالم اسلام اور دنیا بھر میں فلسطین کی حمایت کا زمینہ فراہم کر دیا ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے غزہ کی مالکیت پر مبنی اپنے صدر کے منصوبے کو احمقانہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے: "یہ منصوبہ ٹرمپ کی جانب سے ایران کو سب سے بڑا تحفہ ثابت ہو گا۔ اس منصوبے کے نتیجے میں ایران امریکہ کی حامی تمام سنی عرب حکومتوں کو شرمندہ کرے گا اور خطے میں اپنا اثرورسوخ مزید بڑھا دے گا۔”

6)۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کا منصوبہ اسرائیل اور عرب حکمرانوں کو آمنے سامنے لا کھڑا کرے گا کیونکہ اس منصوبے میں غزہ سے جلاوطن فلسطینیوں کو مصر اور اردن میں بسانے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے جبکہ یہ دونوں ممالک حماس اور اخوان المسلمین کا گڑھ تصور کیے جاتے ہیں اور مصر اور اردن کی حکومتیں اتنی بڑی تعداد میں فلسطینی شہریوں کی آمد کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہیں۔

 

7)۔ چونکہ مصر اور اردن کی معیشت کا انحصار امریکہ کی مالی امداد پر ہے لہذا ممکن ہے یہ دونوں ممالک امریکی دباو کے تحت اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے رضامندی کا اظہار کر دیں لیکن ایسی صورت میں بھی غزہ کے فلسطینی شہری جنہوں نے پندرہ مہینوں تک مسلسل بم اور میزائل حملوں کا مقابلہ کیا ہے اور غزہ کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوئے غزہ کو ترک کرنے پر تیار نہیں ہوں گے۔

8)۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل نے خبردار کیا ہے کہ اگر بالفرض غزہ کے فلسطینی یہ علاقہ چھوڑ کر چلے بھی جاتے ہیں تب بھی فلسطین تنازعہ ختم نہیں ہو گا۔ احمد ابوالغیط نے بدھ 12 فروری کے دن دبئی میں سربراہی اجلاس سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ آج مغربی ممالک کی توجہ غزہ پر مرکوز ہے اور کل ان کی توجہ مغربی کنارے پر مرکوز ہو گی تاکہ وہاں سے بھی فلسطین کے تاریخی باسیوں کو نکال باہر کر دیں۔ اسی طرح رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے منگل 18 فروری کے دن اسلامک جہاد فلسطین کے سیکرٹری جنرل زیادہ النخالہ سے ملاقات کے دوران صیہونی دشمن اور امریکہ کے خلاف اسلامی مزاحمت اور اہل غزہ کی فتح کو عظیم قرار دیتے ہوئے کہا: "اس کامیابی نے مزاحمت کی نئی مثال رقم کر دی ہے۔” انہوں نے امریکہ کے احمقانہ منصوبے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "یہ منصوبہ ہر گز پایہ تکمیل کو نہیں پہنچے گا اور وہی قوتیں جو ڈیڑھ سال پہلے اسلامی مزاحمت کو نابود کرنے کے دعویدار تھے آج اسی سے قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ انجام دینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے