استعماریت سے نوآبادیاتی عہد تک، اور اب پوسٹ-ٹرمپ دنیا؟

480321996_10162766394325948_4379329753000704178_n.jpg

نیٹو (NATO)، جی-7 (G-7) ، اور او ای سی ڈی (OECD)جیسے امریکی قیادت میں قائم کردہ ادارے محض دوسری جنگ عظیم کے بعد کے جغرافیائی اور اقتصادی چیلنجوں کا ردعمل نہیں تھے۔ بلکہ، انہیں اس مقصد کے تحت بنایا گیا تھا کہ سابقہ استعماری طاقتوں کے ڈھیلے ڈھالے اتحادوں کو ایک منظم شکل دی جائے تاکہ دنیا میں استعماری دور کے خاتمے کے باوجود مغربی تسلط برقرار رکھا جا سکے۔روایتی استعماری حکمرانی کے خاتمے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ عالمی طاقت کے ڈھانچے ختم ہو گئے، بلکہ ان کو دوبارہ ترتیب دیا گیا تاکہ ترقی پذیر ممالک کی معیشت اور سیاست پر گرفت برقرار رکھی جا سکے۔ آج جب جی-20 جیسے پلیٹ فارمز ابھر رہے ہیں، تو یہ عالمی عدم مساوات کو ختم کرنے کے بجائے، طاقتور ممالک کے غلبے کو مزید مضبوط کرنے کے ایک اور مرحلے کی نمائندگی کرتے ہیں۔

نوآبادیاتی تسلط سے نوآبادیاتی اقتصادی اور فوجی اتحادوں تک

تاریخی طور پر، یورپی استعماری طاقتیں فوجی قبضے، معاشی استحصال، اور سیاسی کنٹرول کے ذریعے وسیع علاقوں پر حکمرانی کرتی تھیں۔ لیکن جب بیسویں صدی کے وسط میں براہِ راست استعماری حکمرانی کا خاتمہ ہوا، تو ان طریقوں کو ختم کرنے کے بجائے نئی شکل میں متعارف کرایا گیا۔ نیٹو (NATO) جو بظاہر سوویت یونین کے خلاف ایک دفاعی اتحاد کے طور پر قائم ہوا تھا، آج بھی مغربی مداخلت پسندی کا ایک آلہ ہے، جو اکثر کمزور ممالک کی خودمختاری کو سیکیورٹی اور استحکام کے نام پر پامال کرتا ہے۔

اسی طرح جی-7 اور او ای سی ڈی، جو بظاہر معاشی استحکام، تعاون، اور ترقی کو فروغ دینے والے اتحاد ہیں، درحقیقت مغربی اقتصادی بالادستی کے اوزار ہیں۔ جی-7، جو 1970 کی دہائی کے تیل کے بحران کے جواب میں قائم کیا گیا تھا، اصل میں دنیا کی سب سے زیادہ صنعتی ترقی یافتہ اقوام کو عالمی اقتصادی پالیسیوں کے تعین کے لیے یکجا کرنے کے لیے بنایا گیا۔ لیکن اس کا حقیقی مقصد مغربی مالیاتی تسلط کو مستحکم کرنا تھا، تاکہ ایسی مالیاتی پالیسیاں مرتب کی جا سکیں جو ان ممالک کے مفادات کو ترقی پذیر اقوام کی قیمت پر فائدہ پہنچائیں۔

او ای سی ڈی (OECD)، جو ابتدا میں یورپی مارشل پلان کے تحت وجود میں آئی، آج ایک ایسی عالمی پالیسی فورم ہے جہاں امیر ممالک معاشی قواعد وضوابط طے کرتے ہیں۔ بظاہر اسے بہترین مالیاتی اصولوں کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا تھا، لیکن درحقیقت یہ کارپوریٹ مفادات کے تحفظ، ترقی پذیر ممالک پر سخت اقتصادی پالیسیاں مسلط کرنے، اور قرضوں کے جال کے ذریعے ان کو مغربی مالیاتی نظام پر انحصار کرنے پر مجبور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ استعماری حکمرانی کے خاتمے کے باوجود اقتصادی استحصال جاری ہے اور ترقی پذیر ممالک اب بھی ایک نئے مالیاتی سامراج کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔

جی-20: شمولیت کا ایک فریب؟

جب جی-7 پر تنقید بڑھنے لگی کہ یہ ایک مخصوص گروہ تک محدود ہے تو جی-20 تشکیل دیا گیا تاکہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کو شامل کیا جا سکے۔ بظاہر یہ تبدیلی عالمی معیشت میں جمہوری نمائندگی کے فروغ کے طور پر پیش کی گئی کیونکہ اس میں چین، بھارت، برازیل، اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک بھی شامل کیے گئے۔ لیکن عملی طور پر جی-20 مغربی تسلط کو مزید مستحکم کرنے کا ایک ہنر مندانہ طریقہ ہے، جہاں بڑی معیشتوں کو شامل کر کے ان کو اسی معاشی ڈھانچے کا حصہ بنایا جا رہا ہے جو پہلے سے مغربی طاقتوں کے زیرِ کنٹرول تھا۔

یہ تنظیم عالمی معیشت کے اصولوں کو نئے چہروں کے ذریعے پرانے انداز میں لاگو کر رہی ہے، تاکہ دنیا کے مالیاتی نظام پر وہی ممالک حاوی رہیں جو پہلے بھی عالمی مالیاتی نظام کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ جی-20 کی اقتصادی پالیسیاں فری مارکیٹ اکانومی، فری ٹریڈ اور فنانشل پالیسیاں اسی انداز میں مرتب کرتی ہیں جس سے ترقی پذیر اقوام کی خودمختاری محدود ہو جاتی ہے اور انہیں مغربی مالیاتی اداروں جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے تابع رکھا جاتا ہے۔

پرانی شراب، نئی بوتل

نیٹو، جی-7، اور او ای سی ڈی جیسے ادارے عالمی تعاون کو فروغ دینے کے لیے نہیں، بلکہ مغربی استعماری طاقت کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے تشکیل دیے گئے تھے۔ یہ تنظیمیں استعماری عہد کے طاقت کے ڈھانچوں کو نئے مالیاتی اور سیاسی نظام کے ذریعے بحال کرتی ہیں تاکہ ترقی یافتہ اقوام کے اثر و رسوخ اور دولت کو کسی چیلنج کے بغیر برقرار رکھا جا سکے۔جی-7 (G-7) سے جی-20 میں تبدیلی بظاہر ترقی پسند دکھائی دیتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ عالمی عدم مساوات کو قائم رکھنے کا ایک نیا حربہ ہے۔ آج کی نوآبادیات عسکری تسلط کے بجائے اقتصادی انحصار، پالیسیوں میں جوڑ توڑ، اور مالیاتی اداروں کے ذریعے لاگو کی جا رہی ہے۔ لیکن ان سب اداروں اور پالیسیوں کا مستقبل کیا ہے، خصوصاً مسٹر ٹرمپ کے صدر بن جانے کے بعد؟ مسٹر ٹرمپ بھی استعماری ذہن رکھتے ہیں، لیکن وہ سرد جنگ کے “بائی پولر ورلڈ” سے آگے دیکھ رہے ہیں، جس کے خد و خال تاحال واضح نہیں ہیں۔

لہٰذا تاریخی حقائق اور موجودہ معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ ادارے ترقی پذیر اقوام کے لیے اتنے ہی غیر انسانی اور غیر جمہوری ہیں جتنے کہ نوآبادیاتی دور میں تھے۔ ان کا حقیقی مقصد ایک غیر مساوی عالمی نظام کا تحفظ ہے، تاکہ مغربی تسلط کو برقرار رکھا جا سکے اور ترقی پذیر ممالک کی خودمختاری کو محدود کیا جائے۔ ٹرمپ کے زمانے میں دنیا عریاں اقتصادی فائدوں کے مطابق چلے لگی اور اس منافقت کا پردہ چاک ہو جائے گا کہ مغرب “آزادیوں” کی چیمپیئن ہے۔ اس کے لیے ٹرمپ کا شکریہ، اور خاص کر جے ڈی وینس کا جس نے یورپ کے ماموں کو صاف صاف بتایا کہ تُم کسی ملک کے جمہوری انتخابات اس لیے کالعدم قرار نہیں دے سکتے کیونکہ وہ تمہاری مرضی کے نہیں تھے (مسٹر وینس کا یہ موقف پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے لیے اچھی خبر نہیں ہے)۔

سابقہ استعماری طاقتوں کے نئے حربوں کے خلاف “برکس” (BRICS) کے نام سے ایک نیا اقتصادی اور تجارتی اتحاد تشکیل دیا گیا ہے۔ اس اتحاد کے وجود میں آنے کے بعد جی-7 ممالک میں تشویش بڑھ رہی ہے، جبکہ سابقہ محکوم اقوام میں امیدیں جنم لے رہی ہیں۔ تاہم، یہ دیکھنا باقی ہے کہ ترقی پذیر اور کمزور ممالک سے کیے گئے وعدے حقیقت میں انہیں فائدہ پہنچائیں گے یا پھر یہ اتحاد بھی طاقتور معیشتوں کے مفادات کے تحت خود ایک استحصالی نظام میں تبدیل ہو جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے