’تن من نیل و نیل‘: پاکستان میں "توہین مذہب اور ہجومی تشدد ” کے موضوع پر پہلا ڈرامہ

ہمارے ملک میں بہت سے موضوعات پر بات کرنا آسان نہیں کیوں کہ ان کے پر بات کرو تو زندگی مشکل کر دی جاتی ہے۔ کچھ لوگ لاپتہ ہو جاتے ہیں، کچھ کو قید کر دیا جاتا ہے، کچھ پر درجنوں مقدمات قائم ہو جاتے ہیں تو کچھ کو ڈرا دھمکا کر چپ کرا دیا جاتا ہے اور کچھ جان بچا کر ملک سے کوچ کر جاتے ہیں۔ہم چاہیے انسانی حقوق کی طرف دیکھیں، مذہبی رواداری کی طرف جائیں، عدل و انصاف ہو، جمہوریت ہو پارلیمانی نظام ہو یا پھر آزادی صحافت یا آزادی رائے ہو اس ملک میں ہر چیز تنزلی کا شکار ہے۔
موضوعات کی فہرست طویل ہے جن پر ہم سبز پاسپورٹ والے پاکستانی بات نہیں کر سکتے، لیکن ایک ایسا موضوع معاملہ توہین مذہب کے الزامات اور کیسز کا بھی ہے۔توہین مذہب کو اکثر پاکستان میں ذاتی بدلے دشمنی نکالنے کے لیے مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا الزام ہے جو ایسے لوگوں پر بھی لگ جاتا ہے جو اس کے مرتکب نہیں ہوتے۔ہجوم خود ہی پولیس جج جیوری بن کر فیصلہ سنا دیتا ہے اور ایک مظلوم کی جان چلی جاتی ہے۔ ویسے بھی شاہراہ دستور پر نئی تقرریاں ہورہی ہیں۔ انسانی حقوق کی یادگار پر پکوڑے سموسے تلے جا رہے تو کون ان لوگوں کو انصاف دے گا جو انصاف کے منتظر ہیں۔
کہتے ہیں فلم یا ڈراما لوگوں تک کوئی پیغام پہنچانے یا انکے ذہنوں میں کوئی بات ڈالنے کا سب سے بہترین میڈیم ہے اور اسی بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے لکھاریوں نے ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا جن کی وجہ سے معاشرے میں مثبت اور منفی دونوں تبدیلیاں آئیںآج کل سوشل میڈیا پر ڈراما ‘تن من نیل و نیل‘ چھایا ہوا ہے جس کی آخری قسط نے ناظرین کو گہرا صدمہ دیا ہے۔یہ ڈراما متعدد معاشرتی مسائل کے ساتھ ساتھ ’ہجومی تشدد‘ (mob lynching) کے موضوع پر بھی روشنی ڈالتا دکھا کہ کیسے کسی گروہ کو اشتعال دلواکر کسی بے گناہ کو بغیر تصدیق کے ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اگرچہ ڈرامے کی اختتامی قسط کو دیکھنے کے بعد ایک اہم پیغام معاشرے تک گیا ہے کہ ضروری نہیں کہ جیسا دکھ رہا ہو سچ بھی وہی ہو اور اس غلط فہمی کا شکار ہوکر کسی کو ظلم کا نشانہ بنانا غلط ہے وہیں ماضی میں پاکستان میں پیش آنے والے ایسے واقعات کون ہی بھولا سکتا ہے جو ہجومی تشدد کے سبب رونما ہوئے۔پاکستان کی تاریخ میں ہجومی تشدد کا موضوع جب بھی زیرِ غور آئیگا ان 3 واقعات کا ذکر لازمی ہوگا۔
1- گورنر پنجاب سلمان تاثیر
پاکستان پیپلز پارٹی کے پرانے کارکن اور گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے 2010ء میں پاکستان میں ناموس رسالت قانون توہین رسالت کی شدید مخالفت کی اور اس میں ضیاالحق کے دور میں کی کی گئی ترمیم کو کالا قانون قرار دیا- اس کے نتیجہ میں علما کی ایک بڑی تعداد نے اسے واجب القتل قرار دیدیا[حوالہ درکار] اور 4 جنوری 2011ء کو اس کے ایک محافظ ملک ممتاز حسین قادری نے اسلام آباد کے علاقے ایف-6 کی کوہسار مارکیٹ میں اسے قتل کر دیا- متعدد مذہبی سیاسی جماعتوں اور طالبان سمیت کئی دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے تنبیہ اور دھمکی کے باوجود اس کی نماز جنازہ میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سمیت پیپلز پارٹی کے ہزاروں[حوالہ درکار] جیالوں اور خاص و عام افراد نے شرکت کی-[9] نماز جنازہ افضل چشتی نے پڑھائی- اور نماز جنازہ پڑھنے والے متعدد افراد نے توبہ کر کے تجدید ایمان ک
2۔ مغیث اور منیب بٹ
15 اگست 2015 کو سیالکوٹ میں ایک ایسا پُرتشدد سانحہ رونما ہوا جس کی ویڈیو منظرِعام پر آتے ہی دیکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔18 سالہ حافظ محمد مغیث اور 15 سالہ مینب ساجد کو چوری، ڈکیتی اور قتل کا الزام لگا کر ہجوم نے شدید تشدد کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔دونوں بھائیوں کو ڈنڈوں سے مارا گیا، سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور جان سے مارنے کے بعد انکی لاشوں کو مجمع کے سامنے چوک پر لٹکایا گیا لیکن کوئی بھی دونوں بھائیوں کی مدد کیلئے آگے نہیں بڑھا۔جب یہ خوفناک واقعہ رونما ہوتا تو نہ صرف مشتعل گروہ بلکہ 9 پولیس اہلکار بھی وہاں موجود تھے لیکن انہوں نے روکنے کے بجائے اس گناہ کو ہونے دیا جبکہ ایک بھائی مدد کیلئے مقامی ریسکیو سروس سے مدد مانگنے گیا لیکن جب واپس پہنچا تو وہاں مشتعل افراد نے اسے بھی اس افسوسناک اختتام سے نواز دیا۔
اس واقعہ کی ویڈیو ٹی وی چینلز پر نشر ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیا تھا اور تحقیق کے بعد بتایا گیا کہ دونوں بھائیوں پر لگایا گیا الزام سراسر جھوٹ تھا اور وہ بے گناہ تھے۔مغیث اور منیب بٹ پر ہونے والے ہجومی تشدد نے نہ صرف ہر آنکھ اشکبار کردی بلکہ ہجومی تشدد کے شدید خطرے کو بھی اجاگر کیا کہ کیسے مشتعل لوگ کسی بھی بات کو سنگین مسئلہ بنا کر بغیر کسی تصدیق کسی شخص پر تشدد کر کے اسے جان سے مار سکتے ہیں اور پھر ایسے میں کوئی پولیس اہلکار یا سیکیورٹی سروس بھی مدد کرنے آگے نہیں بڑھتی کیونکہ مشتعل افراد سامنے آنے والی ہر رکاوٹ کو ہٹانے کیلئے جان کی بازی لگا دیتے ہیں۔
3۔ مشال خان
13 اپریل 2017 کو مردان میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشال خان نامی طالبعلم کو بھی ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن مشعل کے معاملے میں حقیقت سچ ہے کہ نہیں اسکی تصدیق سے قبل ہی مشعل خان کو قتل کردیا گیا۔شعبہ ابلاغیات کے طالبعلم مشال خان کو ایک مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں انتہائی تشدد کے بعد ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تحقیقات کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس الزام کو جھوٹا قرار دیا تھا۔تحقیق کے بعد یہ بتایا گیا کہ انسپیکٹر جنرل آف پولیس کو ایسا کوئی مواد نہیں ملا جو مشال خان پر توہینِ مذہب کے الزام کو ثابت کر پاتا۔
4۔ حلوہ، اچھرہ بازار لاہور:
25 فروری 2024 کو صوبۂ پنجاب کے شہر لاہور کی اچھرہ مارکیٹ میں ایک ایسا واقعہ رونما ہو جو ایک خاتون ہجومی تشدد کا شکار ہوکر موت کے گھاٹ اترنے سے بال بال بچ گئی۔خاتون نے عربی خطاطی کے پرنٹ والی قمیص پہن رکھی تھی اور معاملہ اس وقت سنگین ہوگیا کہ جب ایک شخص نے یہ نعرہ بلند کردیا کہ خاتون نے قرآنی آیات کے پرنٹ والے کپڑے پہن رکھے ہیں جس کے بعد مشتعل ہجوم نے خاتون کو گھیر لیا۔خاتون کا کویتی لباس پہننا ان پر توہینِ مذہب جیسے سنگین الزامات عائد کرواگیا اور لوگوں نے مشتعل ہوکر خاتون کو ہراساں کیا اور غصے کے عالم میں خاتون پر حملہ آور ہونے کی کوشش بھی کی گئی لیکن ایک دکاندار نے خاتون کو اپنی دکان میں پنہا دی۔خیال رہے کہ ہراسانی کا شکار ہونے والی خاتون نے اچھرہ مارکیٹ میں شاپنگ کے دوران کویتی لباس پہن رکھا تھا اور اس پر پرنٹ شدہ شک میں ڈالنے والی خطاطی نے ہجوم کو مشتعل کردیا بعدازاں اے ایس پی گلبرگ سیدہ شہربانو نقوی نے بروقت کاروائی کر کے خاتون کو حفاظتی تحویل میں لے لیا تھا۔واضح رہے کہ خاتون نے جو لباس پہن رکھا تھا اس پر ’حلوہ‘ لفظ پرنٹ تھا اور عربی زبان میں حلوہ کے معنی حسین، خوبصورت اور میٹھے کے ہیں۔
’تن من نیل و نیل‘ اگرچہ متعدد معاشرتی مسائل کے خلاف آواز اٹھاتا دکھا لیکن اس کا اختتام ہجومی تشدد کے موضوع پر ہی کیا گیا جس سے یہ سبق بھی ملا کہ معاشرے کا حصہ ہوتے ہوئے ہم اکثر غلط ہوتا دیکھتے ہیں لیکن اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے جو ظلم و تشدد کی فضا کو عام کرتا ہے۔ڈرامے کی آخری قسط دیکھ کر ناظرین کے ذہن سے ماضی میں رونما ہونے والے اُن تمام واقعات آئے جن میں اسی طرح ہجومی تشدد ہوا تھا اور اس ہی سبب سب کو یہ ڈراما دیکھ کر صدمہ پہنچا کہ شاید ہم بھی لوگوں کے ڈر سے کبھی سچ جانتے ہوئے بھی خاموش رہتے ہیں اور کبھی ملزم پر الزام ثابت کیے بغیر اس پر تشدد ہونے دیتے ہیں اور حقیقت جاننے پر زور نہیں دیتے۔تن من نیل و نیل کی آخری قسط کا اختتام خاص نظم پر ہوا جس کے دوران اچھرہ بازار، مغیث اور منیب، مشال خان کے علاوہ پاکستان میں ہجومی تشدد کے دو مزید واقعات کو یاد دلاتے ہوئے پریانتھا کمارا دیاوادنا اور سانحۂ جرانوالا کے متاثرین کی تصاویر بیچ بیچ میں شامل کی گئیں جس نے اس سین کو مزید دلوں سے جوڑ دیا۔