ہراسانی اور پردہ پوشی: یونیورسٹی آف ملاکنڈ بے نقاب

malakand-university.jpg

ملاکنڈ یونیورسٹی کے پروفیسر عبدالحسیب کو ایک چھٹی سمسٹر کی اردو طالبہ، حرا گل، کی شکایت پر جنسی ہراسانی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ طالبہ کی باضابطہ شکایت پر ملاکنڈ لیویز نے کارروائی کرتے ہوئے پروفیسر کو حراست میں لے لیا، جبکہ عوامی دباؤ کے پیش نظر یونیورسٹی انتظامیہ نے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے۔ یونیورسٹی کے ترجمان کے مطابق، اگر پروفیسر پر الزام ثابت ہو جاتا ہے تو انہیں ملازمت سے برطرف کر دیا جائے گا، لیکن اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی وسیع تر پالیسی تاحال منظر عام پر نہیں آئی۔

سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک ویڈیو میں پروفیسر کی مارپیٹ کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں، جہاں انہیں عوامی سطح پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ویڈیو میں دعوی کیا گیا ہے کہ وہ (عبدالحسیب) واٹس ایپ پر طالبات کو غیر اخلاقی پیغامات اور فحش ویڈیوز بھیجتے رہے۔ تاہم، حیران کن طور پر، متعلقہ حکام نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (FIA) کو شامل کیے بغیر محض ایک ایف آئی آر کی بنیاد پر کارروائی کی ہے، حالانکہ الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے قانون (PECA) کے تحت سخت قانونی دفعات عائد کی جا سکتی تھیں۔ کچھ افراد کا دعوی ہے کہ ان کے موبائل فون میں سینکڑوں نازیبا ویڈیوز اور تصاویر موجود ہیں، جس پر یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ یہ مواد کس کے قبضے میں ہے اور اسے کس حد تک تحفظ حاصل ہے۔

یہ سکینڈل یونیورسٹی انتظامیہ پر بھی سنگین سوالات اٹھا رہا ہے، کیونکہ اطلاعات کے مطابق حکام نے پہلے اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی تھی۔ عوامی سطح پر یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نہ صرف ملزم کے خلاف سخت کارروائی کریں بلکہ ان افراد کو بھی بے نقاب کریں جنہوں نے اس گھناؤنے فعل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ حیران کن طور پر، یونیورسٹی انتظامیہ اب یہ افواہیں پھیلا رہی ہے کہ پروفیسر عبدالحسیب اس وقت گرفتار ہوئے جب وہ شکایت کنندہ سے شادی کی کوشش کر رہے تھے۔ تاہم، طالبہ حرا گل نے اس دعوے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر انہیں واٹس ایپ پر جنسی تعلقات قائم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ یونیورسٹی آف ملاکنڈ کسی تنازعے کی زد میں آئی ہو۔ ماضی میں بھی انتظامیہ پر غیر انسانی پالیسیوں کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ موسیٰ خان کا واقعہ اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے، جب ایک ہاسٹل طالبعلم کو محض رباب بجانے کی پاداش میں نصف شب ہاسٹل سے نکال دیا گیا۔ ذہنی دباؤ کے شکار موسیٰ خان اپنی موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گئے اور جاں بحق ہوگئے۔ یونیورسٹی نے اس واقعے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی، لیکن طلبہ نے احتجاج کر کے اس مسئلے کو خیبر پختونخوا اسمبلی تک پہنچا دیا۔

پروفیسر عبدالحسیب کی گرفتاری کے بعد یہ معاملہ مزید سنگین ہو گیا ہے۔ عوامی دباؤ کے تحت خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے، اور ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس کی سربراہی ایڈیشنل سیکریٹری آصف رحیم اور ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (AIG) سونیا شمروز کر رہی ہیں۔ کمیٹی کو 15 روز میں اپنی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

پاکستان کے سائبر کرائم قوانین کے تحت کسی خاتون کو غیر اخلاقی پیغامات بھیجنا یا ان کی تصاویر کے ذریعے بلیک میل کرنا سنگین جرم ہے۔ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) 2016 کے تحت سیکشن 20، 21، 24 اور پاکستان پینل کوڈ (PPC) کی دفعہ 509 جیسے قوانین لاگو ہوتے ہیں، جو ہراسانی اور بلیک میلنگ کے مرتکب افراد کو 3 سے 7 سال قید اور لاکھوں روپے جرمانے کی سزائیں دے سکتے ہیں۔ مگر، حیران کن طور پر، پروفیسر عبدالحسیب کے خلاف درج ایف آئی آر میں ان سخت قوانین کو شامل نہیں کیا گیا، جس سے انتظامیہ اور متعلقہ حکام کی نیت پر شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔

یونیورسٹی کے طلبہ کا کہنا ہے کہ جب تک سخت قانونی کارروائی نہیں کی جاتی، ایسے واقعات دہرائے جاتے رہیں گے۔ ماضی میں بھی 2020 میں ایک چینی طالبہ نے انگریزی ڈیپارٹمنٹ کے ایک سینئر پروفیسر پر ہراسانی کا الزام لگایا تھا، مگر اس کی شکایت کو دبا دیا گیا۔ اب، اس نئے سکینڈل کے بعد خواتین طلبہ عدم تحفظ کا شکار ہیں اور تعلیمی اداروں میں محفوظ ماحول کے لیے حکام سے مطالبہ کر رہی ہیں۔

ادھر، چیف آف آرمی سٹاف (COAS) جنرل عاصم منیر نے اپنے خطاب میں اسلامی اصولوں کی غلط تشریح کرنے والے عناصر کی مذمت کی اور واضح کیا کہ اسلام خواتین کے وقار کا تحفظ کرتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ خواتین کو ہراسانی سے پاک تعلیمی ماحول فراہم کرنا حکومت اور معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ ان کے اس بیان کو طالبات نے سراہا، مگر اس پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ معاملہ اب اعلیٰ سطحی تحقیقات کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ پولیس سٹیشن پل چوکی میں درج ایف آئی آر نمبر 185 میں دفعہ 365-B، 511، 506، 452، 354، اور 509 PPC شامل کی گئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق شکایت کنندہ حرا گل نے ملاکنڈ لیویز کو ملزم کی طرف سے بھیجے گئے نازیبا پیغامات اور دھمکیوں کے سکرین شاٹس بھی فراہم کیے ہیں۔

یہ کیس صرف ایک شخص کی گرفتاری کا معاملہ نہیں بلکہ ایک مکمل نظام کے انحطاط کی نشاندہی کر رہا ہے۔ تعلیمی ادارے جہاں علم و تحقیق کے مراکز ہونے چاہئیں، وہاں طالبات کو ہراساں کرنے اور انتظامیہ کی بے حسی کے قصے منظر عام پر آ رہے ہیں۔ اگر اس بار بھی سخت اقدامات نہ کیے گئے، تو نہ جانے کتنی مزید طالبات ایسے درندوں کا شکار بنیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے