کرم میں قافلے پر حملے میں شہید ہونیوالے پانچ سکیورٹی اہلکاروں کی نمازِ جنازہ ادا کر دی گئی

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں قافلے پر فائرنگ کے نتیجے میں پانچ سکیورٹی اہلکاروں سمیت چھ افراد کی شہادت کی تصدیق ہوگئی ہے۔نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ضلعی انتظامیہ کے دو اہلکاروں نے ان شہادتوں کی تصدیق کی ہے۔شہید ہونے والے چار اہلکاروں کی نماز جنازہ آج صبح جبکہ ایک کی گذشتہ رات ٹل میں ادا کی گئی۔میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر رحیم گل نے بتایا کہ گذشتہ روز قافلے پر حملے کے بعد گیارہ زخمی بی ایچ یو مندوری لائے گئے جبکہ ایک زخمی ڈی ایچ کیو صدہ لے جایا گیا۔اس کے علاوہ ایک شہری جن کی شناخت بگن کے رہائشی یاسین کے نام سے ہوئی، کی لاش بی ایچ یو مندوری لائی گئی۔گذشتہ رات وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی صدارت میں ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں صوبائی حکومت نے لوئر کرم کے علاقے اوچت، مندوری اور دیگر علاقوں کو شرپسندوں سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ شرپسندوں کے خلاف موثر کارروائیوں کے لیے ان علاقوں سے مقامی لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے گا۔
ٹل کے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر سید احسان علی شاہ نے بتایا کہ اگر متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی کی ضرورت پڑتی ہے تو اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ نے تین مقامات پہلے ہی تیار کر لیے ہیں۔اسٹنٹ کمشنر کا کہنا ہے کہ ضروری سامان جس میں ٹینٹ، خوراک اور ڈاکٹرز شامل ہیں، کا انتظام کر لیا گیا ہے۔گزشتہ روز کرم جانے والے قافلے کے حوالے سے سید احسان علی شاہ نے بتایا کہ 113 گاڑیوں پر مشتمل قافلے میں خوراک، ادویات، ایل پی جی اور فیول کے ٹرک شامل تھے۔ان کا کہنا ہے کہ ہنگو کی ضلعی انتظامیہ نے ان ٹرکوں کو بحفاظت چھپری تک پہنچایا جبکہ آگے کی ذمہ داری کرم انتظامیہ کی تھی۔احسان علی شاہ نے بتایا کہ جیسے ہی قافلہ مندوری پہنچا تو فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔ ان کے مطابق 49 ٹرک بحفاظت ٹل واپس پہنچ گئے ہیں جبکہ آخری اطلاع کے مطابق چھ ٹرکوں کو جلا دیا گیا جبکہ اٹھارہ ٹرکوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں۔
سوموار کے واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر کچھ ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کچھ ٹرکوں کو جلایا جارہا ہے جبکہ کچھ ٹرکوں سے اشیا خوردونوش لوٹی جارہی ہیں تاہم ان ویڈیوز کی تصدیق نہیں ہو سکی۔اس حوالے سے لوئر کرم کے اسسٹنٹ کمشنر سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔گذشتہ کئی ماہ سے اپر کرم کے راستے بند ہیں جس کی وجہ سے علاقے میں خوراک، ادویات اور ایندھن کی قلت پیدا ہو گئی ہے جبکہ علاقے کا ملک کے دیگر علاقوں میں زمینی ربطہ منقطع ہے۔یاد رہے کہ جنوری کے مہینے میں فریقین کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کے بعد سے سرکاری سطح پر قافلے کی صورت میں پاڑہ چنار اور دیگر علاقوں کو بنیادی اشیا کی ترسیل کی جاتی ہے تاہم ان قافلوں پر حملوں کا خطرہ ہر وقت منڈلاتا رہتا ہے۔