ملک میں خشک سالی کے خدشات: ’چنے کی تقریباً آدھی فصل کو نقصان پہنچ چکا ہے‘

پاکستان میں رواں موسم سرما میں بھی درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافے نے آنے والے مہینوں میں پانی کے بحران کے خدشات کو جنم دیا ہے، کیونکہ جنوری میں درجہ حرارت معمول سے 4 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ گیا اور برف باری معمول سے ایک تہائی سے بھی کم ہوئی۔درجہ حرارت میں اس اضافے نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا ہے۔ صوبہ سندھ کے جنوبی علاقے تھرپارکر کے ایک قصبے مٹھی میں آج بھی زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 34 ڈگری سینٹی گریڈ ہے جبکہ جنوری کے مہینے میں اس قصبے میں اوسط درجہ حرارت 28 ڈگری تک ریکارڈ کیا گیا جو سردیوں کے مہینے میں ایک غیر معمولی اضافہ ہے۔واضح رہے کہ پنجاب میں بھی بارشوں کی کمی کے باعث پانی کی قلت کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر، محکمہ ماحولیات کی جانب سے پنجاب میں کچھ اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں۔ صوبے میں تمام کار واش اسٹیشنوں پر 28 فروری 2025 تک واٹر ری سائیکلنگ سسٹم اور یو چینلز کی تنصیب لازمی کر دی گئی ہے۔ خلاف ورزی پر 1 لاکھ روپے جرمانہ اور کار واش ایریا سیل کرنے کے حوالے سے بھی تنبیہ کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ ️ گاڑیوں کی آئل واشنگ اور ️گھروں میں کار دھونے اور ہوز پائپ کے استعمال پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ ان احکامات کی خلاف ورزی پر 10 ہزار روپے جرمانہ لگایا گیا ہے۔ ️لان، باغات، گالف کورسز اور گرین بیلٹس میں پانی کے زیادہ بہاؤ اور تعمیراتی کاموں میں زیر زمین پانی کے استعمال پر پابندی لگائی گئی ہے جبکہ ان کاموں میں صرف سطحی یا ری سائیکل شدہ پانی استعمال کیا جا سکتا ہے۔خلاف ورزی کی صورت میں پاکستان پینل کوڈ (PPC) کی دفعہ 188 کے تحت قانونی کارروائی کی جائے گی۔صوبہ پنجاب کی بات کی جائے تو ستمبر سے جنوری کے مہینے تک گزشتہ برسوں کے مقابلے میں 42 فیصد کم بارشیں ہوئی ہیں۔ملک میں موسم کی کیا صورتحال رہے گی؟ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل مہر صاحبزاد خان نےبتایا کہ اسلام آباد میں مارچ کے مہینے میں درجہ حرارت 35 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔ جبکہ صوبہ سندھ کے کچھ حصوں میں مارچ کے دوران ہی درجہ حرارت 40 ڈگری سے بھی تجاوز کر سکتا ہے۔ یعنی رمضان کے مہینے میں ملک بھر میں گرمیوں کا باقاعدہ آغاز ہو جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس غیر معمولی بلند درجہ حرارت کی وجہ رواں برس بارش میں نمایاں کمی ہے۔ پاکستان میں عام طور پر ہر سال پہاڑی علاقوں کے 49 فیصد حصے پر برف باری ہوتی ہے، جس میں اس سال واضح کمی دیکھی گئی اور اس سال 49 فیصد کے بجائے محض 15 فیصد پہاڑی علاقوں میں برفباری ہوئی۔برفباری میں اس بڑی کمی کی وجہ سے مناسب مقدار میں پہاڑی علاقوں میں برف جمع نہیں ہوسکی، جس کے نتیجے میں موسم گرما کے دوران پاکستان کے دریاؤں اور آبی ذخائر کے انتہائی کم سطح تک پہنچنے کا امکان ہے، جس سے پانی کی قلت سنگین صورتحال اختیار کرسکتی ہے۔ اس کی تیاری کے طور پر حکام کی جانب سے سرکاری اہلکاروں اور کسانوں دونوں کو ابتدائی انتباہ جاری کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ پنجاب کے 14 اضلاع میں اس وقت خشک سالی کی کیفیت ہے، متاثرہ علاقوں میں پوٹھوہار، بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یار خان، بھکر، لیہ، خوشاب، مظفر گڑھ سمیت دیگر اضلاع شامل ہیں، پی ڈی ایم اے نے چولستان انتظامیہ کو بھی الرٹ رہنے کی ہدایات دی ہیں۔
پاکستان میں پانی کی قلت کے سبب متاثر ہونے والی فصلوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈائریکٹر انوائرمنٹ این اے آر سی ڈاکٹر بشیر نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ملک میں پانی کی قلت کے خدشات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ ایک تو پورے موسم سرما میں جو بارشیں ہوا کرتی تھیں وہ نہیں ہوئیں جس سے خشک سالی بہت زیادہ ہے۔ اس کی وجہ سے خاص طور پر بارانی علاقوں میں گندم اور چنا جیسی فصلوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چنے کی فصل کو تو تقریباً 45 فیصد تک نقصان ہو چکا ہے۔بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے بالائی علاقوں میں برفباری بھی معمول سے کم ہوئی ہے۔ اس کے اثرات گندم کی فصل پر آئیں گے۔ کیونکہ برفباری کی وجہ سے پانی ایک بڑی مقدار میں میسر ہوتا تھا۔ ہمارے پانی ذخائر، منگلا اور تربیلا پہلے ہی خشک سالی کا شکار ہیں۔ یہی امید ہے کہ ہمیں بس کسی قسم کے بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بارانی گندم کو تو نقصان ہو ہی رہا ہے لیکن وہ علاقے جہاں گندم کا انحصار ان نہروں پر ہوتا ہے، خشک سالی سے وہ بھی متاثر ہوں گے۔ یہ صورتحال مئی یا جون میں بہتر ہو سکتی ہے جب گلیشیئرز پگھلیں گے۔ اس سے قطع نظر ابھی صورتحال کافی مشکل ہے کیونکہ گندم کے حوالے سے خطرات کافی بڑھ چکے ہیں، بلکہ سرسوں اور چنے کی فصل بھی شدید متاثر ہوگی۔