فوج کی زرعت میں مداخلت نتائج اور اثرات

Asim-munir.jpg

گزشتہ روز چولستان میں گرین کارپوریٹ منصوبے کا افتتاح کیا گیاـ تقریب کے مہمان خصوصی آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ گرین کارپوریٹ منصوبے کے تحت مختصر وقت میں کامیابیاں حوصلہ افزا اور ترقی کی نوید ہیں۔ فوج ملک کی معاشی ترقی کے عمل میں بھرپور حمایت جاری رکھے گی۔پاکستانی افواج نے مختلف ادوار میں زراعت اور زرعی معاملات میں براہ راست یا بالواسطہ مداخلت کی ہے۔ یہ مداخلت مختلف طریقوں سے کی گئی، جن میں زمینوں کی تقسیم، زرعی منصوبے، اور فوجی اداروں کی زرعی سرگرمیوں میں شمولیت شامل ہے۔

زرعی زمینوں کی الاٹمنٹ (1950ء سے اب تک)

• فوجی افسران، خاص طور پر ریٹائرڈ افسران کو زرعی زمینیں الاٹ کرنے کا عمل قیامِ پاکستان کے بعد سے جاری ہے (پہلا انیشیایٹو ہارورڈ ایڈوائزری گروپ کی مدد سے لیا گیا تھا)۔
• 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں خاص طور پر پنجاب اور سندھ میں بڑی زرعی زمینیں افواج کے اہلکاروں میں تقسیم کی گئیں (نئے بیراجوں اور نئی نہروں کی تعمیر کے بعد سندھ کی زمینوں کو افواج پاکستان کے سرونگ اور ریٹائرڈ افسران میں تقسیم کیا گیا تھا)۔
• 2000ء کی دہائی میں بھی زمینوں کی الاٹمنٹ کے حوالے سے تنازعات سامنے آئے، خاص طور پر چولستان اور دیگر بنجر علاقوں میں۔

فوج کے زرعی فارمز اور منصوبے

• نیشنل لاجسٹک سیل (NLC) اور فوجی فاؤنڈیشن کے تحت زرعی پیداوار کے منصوبے شروع کیے گئے۔
• ملٹری فارمز (جیسے سرگودھا، اوکاڑہ) میں دودھ اور دیگر زرعی اشیاء کی پیداوار کی جاتی ہے۔
• اوکاڑہ ملٹری فارمز کے کسانوں اور فوج کے درمیان زمین کے حقِ ملکیت پر تنازعات سامنے آئے، جس میں کسانوں کے حقوق کی تحریکیں بھی چلیں۔

 مارشل لاء ادوار میں زرعی پالیسیوں پر اثر

• ایوب خان (1958-1969): زرعی اصلاحات کا اعلان کیا، مگر فوجی افسران کو بھی زمینوں سے نوازا گیا۔
• اسی دور میں، یعنی سنہ 1960 میں، انڈس واٹر ٹریٹی پر دستخط ہوئے تھے، اور پنجابی فوج نے پنجاب کے تین مشرقی دریاؤں کا پانی انڈیا کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ نہ فوڈ سیکیورٹی حاصل ہوئی اور نہ ہی ماحولیاتی تباہی سے بچا جا سکا۔
• ضیاء الحق (1977-1988): بڑے زمینداروں کی حمایت اور جاگیرداری نظام کو مضبوط رکھنے کی پالیسی اپنائی۔
• پرویز مشرف (1999-2008): “کارپوریٹ فارمنگ” کے منصوبے متعارف کرائے گئے، جس میں فوجی ادارے بھی شامل رہے۔

حالیہ سالوں میں فوج کی زرعی منصوبوں میں شمولیت

• 2023-24 میں “گرین پاکستان انیشی ایٹو” کے تحت فوج نے بنجر زمینوں کو کاشت کے قابل بنانے کے منصوبے کا اعلان کیا، جس میں بلوچستان، سندھ، اور پنجاب کے بنجر علاقوں کو زرعی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی بات کی گئی۔
• کچھ رپورٹس کے مطابق فوجی ادارے اس منصوبے میں نجی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک کر رہے ہیں، جس سے زرعی شعبے میں فوج کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے(یعنی یہ ایک سب-لیٹ کا انداز ہے)۔

نتائج اور اثرات

• زراعت میں فوج کی مداخلت پر تنقید بھی کی جاتی ہے، خاص طور پر کسانوں کے حقوق کے تناظر میں۔
• فوجی فارمز اور زرعی منصوبوں سے کچھ علاقوں میں ترقی ہوئی، لیکن بعض اوقات مقامی آبادی اور کسانوں کو ان سے نقصان بھی پہنچا (زراعت میں فوجی مداخلت کی وجہ سے ماحولیات پر ہونے والے منفی اثرات کی کوئی رپورٹ تیار نہیں کی گئی)۔
• زمینوں کی الاٹمنٹ کے معاملات اکثر تنازعات اور شفافیت کے سوالات کو جنم دیتے ہیں۔
یہ تمام عوامل ظاہر کرتے ہیں کہ فوج کا زرعی شعبے میں کردار کئی دہائیوں سے مختلف شکلوں میں موجود رہا ہے، جو نہ صرف زرعی پالیسیوں بلکہ کسانوں کی روزمرہ زندگی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
فوجی مداخلت کے باوجود زرعی پیداوار میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آئی، بلکہ زمینوں کی الاٹمنٹ اور فوجی زرعی منصوبوں سے زیادہ تر فائدہ بڑے زمینداروں اور فوجی افسران کو ہوا۔ غریب کسان بدستور بے زمین رہا، جبکہ اوکاڑہ جیسے تنازعات میں کسانوں کو استحصال اور جبر کا سامنا کرنا پڑا۔

“گرین پاکستان انیشی ایٹو” کے نام پر کارپوریٹ فارمنگ کی یہ ایک غیر دانشمندانہ پالیسی معلوم ہوتی ہے، خاص طور پر جب دنیا چوتھے صنعتی انقلاب میں مصنوعی ذہانت (AI) اور ہائی ٹیک زراعت پر سرمایہ کاری کر رہی ہے، پاکستان ابھی تک زراعت میں پھنسی ہوئی ہے۔پاکستان کا سرکاری وسائل کو نجی کارپوریٹ فارمنگ کے لیے مختص کرنا نہ صرف محدود زرعی زمین کی نجکاری ہے بلکہ یہ روایتی ماڈل کی طرف واپسی ہے، جو چھوٹے کسانوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کرتا ہے۔ کیا حکومت کا یہ فیصلہ جدید معاشی اور سائنسی ترقی کے ساتھ ہم آہنگ ہے، یا یہ ایک فرسودہ نوآبادیاتی زرعی ماڈل کی بحالی ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے