حزب اللہ لبنان کے خلاف نئی سازش

04.jpg

 

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے مشرق وسطی کا دورہ کیا ہے اور تل ابیب گیا ہے۔ اس دورے میں اس نے اپنے اسرائیلی ہم منصب گیدون ساعر سے ملاقات کرنے کے ساتھ ساتھ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے بھی ملاقات کی اور غزہ کے مستقبل سمیت لبنان کے حالات پر بھی بات چیت کی ہے۔ بنجمن نیتن یاہو نے صحافیوں سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ تل ابیب واشنگٹن کے ہمراہ مغربی ایشیا میں ایران کے خلاف سرگرم عمل رہے گا۔ اس نے مزید کہا کہ خطے کا اہم ترین ایشو ایران اور مزاحمتی گروہوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو کی جانب سے بحیرہ روم کے مشرقی ساحل کے پہلے دورے کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم واقعہ بھی رونما ہوا ہے اور وہ وائٹ ہاوس کی ایماء پر 900 کلوگرام وزنی بم ایم کے 84 کی بڑی کھیپ غاصب صیہونی رژیم کو فراہم کرنا ہے جو آئندہ جنگوں میں بروئے کار لائی جائے گی۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے مزید کہا کہ تل ابیب لبنان سے جنگ بندی معاہدے کی پابندی کرے گا اور وہ حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کر دینا چاہتا ہے۔

 

بنجمن نیتن یاہو نے غزہ کے بارے میں کہا: "اگر تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد نہ کیا گیا تو ہم نے ٹرمپ کے ساتھ ایک مشترکہ حکمت عملی تیار کر رکھی ہے کہ جہنم کے دروازے کھول دیے جائیں۔” نیتن یاہو نے مزید کہا کہ اس نے مارکو روبیو کے ساتھ بشار اسد حکومت کی سرنگونی کے بعد شام کے مستقبل کے بارے میں بھی بات چیت کی ہے۔ صیہونی وزیراعظم نے اپنی پریس کانفرنس کے آخر میں کہا: "شام میں جو قوت بھی یہ سمجھتی ہے کہ وہ اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکتی ہے غلط فہمی کا شکار ہے۔” صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے درمیان ہونے والی بات چیت زیادہ تر غزہ کی پٹی، جنوبی لبنان اور شام میں اسلامی مزاحمتی گروہوں سے مقابلے پر مرکوز رہی ہے۔ صیہونی حکمرانوں نے حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے اور حماس کو غزہ سے بے دخل کرنے میں ٹرمپ حکومت کی غیر مشروط حمایت سے امیدیں لگا رکھی ہیں۔ امریکہ بھی مغربی ایشیا سے متعلق اپنی نئی حکمت عملی کے تناظر میں غاصب صیہونی رژیم کے کردار کو بہت زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔ واشنگٹن کا اصل مقصد یہ ہے کہ تل ابیب کو خطے کے سیکورٹی امور کی ذمہ داری سونپ کر پینٹاگون پر پڑنے والا مالی اور انسانی دباو کم کر سکے۔

 

غاصب صیہونی رژیم کی فوج اور حزب اللہ لبنان کے درمیان تقریباً ایک ماہ تک جاری رہنے والی جنگ کا صیہونی رژیم کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا اور وہ میدان جنگ میں اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پائی جس کے باعث تل ابیب نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اب وہ سیاست کے میدان میں وہی اہداف حاصل کرنے کے درپے ہے۔ تل ابیب کی ہدایت پر لبنان میں اسلامی مزاحمت کے مخالف حلقوں نے لبنانی حکومت کے قومی اداروں کی قانونی مشروعیت کو حزب اللہ لبنان کے خلاف استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ لبنان کے امور کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی مورگن اورٹیگاس نے لبنان کے صدر جوزف عون سے اپنی پہلی ملاقات میں واشنگٹن کی ریڈ لائنز واضح کی ہیں جن میں نئے لبنانی وزیراعظم نواف سلام کی کابینہ میں حزب اللہ لبنان کی عدم موجودگی بھی شامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نئی کابینہ میں حزب اللہ لبنان کی عدم موجودگی لبنان حکومت کو اپنے اہداف کے لیے استعمال کرنے میں مغربی طاقتوں کو بہت زیادہ سہولت اور آسانی فراہم کرے گی۔ لبنان حکومت میں اسرائیل نواز حلقوں اور حزب اللہ لبنان کے درمیان ایک بڑا تنازعہ حزب اللہ لبنان کا خفیہ ٹیلی فون نیٹ ورک ہے۔ اس مسئلے میں لبنان حکومت نے 2007ء سے حزب اللہ لبنان کے کمانڈرز کو اپنی ناراضگی سے مطلع کر رکھا ہے۔

 

اسی بارے میں لبنان حکومت کے سابق ترجمان قاضی الاریدی نے اعلان کیا تھا کہ حکومت ان رپورٹس کا جائزہ لینے کے درپے ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت مخالف شیعہ جماعتوں نے بیروت ایئرپورٹ پر اپنے مخصوص سی سی ٹی وی کیمرے نصب کر رکھے ہیں۔ دوسری طرف یہ ایک حقیقت ہے کہ حزب اللہ کا کمیونیکیشن سسٹم غاصب صیہونی رژیم سے مقابلے کے لیے تشکیل پایا ہے اور وہ لبنان کے قومی مفادات سے مکمل ہم آہنگی رکھتا ہے۔ لبنان کے حکومتی اداروں میں موجود مغرب نواز حلقوں اور حزب اللہ لبنان کے درمیان ایک اور اہم اختلاف ایران کی فضائی کمپنی ماہان ایئر کی فلائٹ پر لبنان حکومت کی جانب سے پابندی عائد ہونا ہے۔ لبنان حکومت نے صیہونی فوج کے ترجمان کی جانب سے ایران پر اپنی پروازوں کے ذریعے حزب اللہ لبنان کو اسلحہ اور پیسے فراہم کرنے جیسے بے بنیاد الزامات کو بنیاد بنا کر ان پروازوں پر پابندی عائد کی ہے۔ حزب اللہ لبنان نے اس حکومتی اقدام کے ردعمل میں بیروت انٹرنیشنل ایئرپورٹ جانے والے راستے بند کر کے احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے۔ اسی طرح حزب اللہ لبنان نے اپنے بیانیے میں اعلان کیا ہے کہ اس احتجاج کا مقصد اسرائیل کی جانب سے لبنان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی مذمت کرنا ہے۔

 

اسی طرح کی سازش اس سے پہلے بھی حزب اللہ لبنان کے خلاف انجام پا چکی ہے۔ بہار 2008ء میں جب فواد سینیورے لبنان کا وزیراعظم تھا تو امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم نے لبنان حکومت پر دباو ڈالا کہ وہ بیروت ایئرپورٹ پر آنے والی ایرانی پروازیں بند کر دے۔ لیکن دوسری طرف شیعہ جماعتوں حزب اللہ لبنان اور امل کی سربراہی میں شدید عوامی احتجاج شروع ہوا اور یہ کوشش ناکام ہو گئی۔ رفیق حریری کے قتل کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر اس کے بیٹے سعد حریری نے شام کی گذشتہ حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور المستقبل کی سیاست کے میدان میں واپسی کا مطالبہ بھی کیا۔ فرانس نے 1946ء میں لبنان پر قوم پرستانہ آئین مسلط کر دیا تھا جس کی وجہ سے لبنان حکومت ہمیشہ سے کمزور سیاسی اداروں کی مالک رہی ہے اور یوں عوام کی بھی بھرپور خدمت نہیں کر پاتی اور یہ کردار زیادہ تر غیر سرکاری تنظیموں کو انجام دینا پڑتا ہے۔ حزب اللہ لبنان بھی اس میدان میں آگے آگے ہے اور وہ صرف ایک مسلح گروہ ہی نہیں بلکہ مختلف سماجی امور جیسے تعلیم، ٹرانسپورٹ، شہروں کی صفائی اور صحت میں بھرپور انداز میں سرگرم عمل ہے۔ اسی وجہ سے وہ لبنان میں بہت زیادہ عوامی محبوبیت کی حامل تنظیم سمجھی جاتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے