تحریک طالبان اور "حافظ گل بہادر” گروپ میں بڑھتے اختلافات اور وجوہات

کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) اور حافظ گل بہادر گروپ کے درمیان گزشتہ چند ہفتوں سے جاری اثر و رسوخ کی لڑائی میں شدت آنے کی اطلاعات ہیں۔کراچی کے علاقے منگھوپیر میں ہفتے کو فائرنگ کے واقعے میں پولیس اہلکار کی ہلاکت کو ماہرین کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے دھڑوں کے درمیان جاری کشمکش کا ہی تسلسل قرار دے رہے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی ماضی میں اس نوعیت کے واقعات کی ذمے داری قبول کرتی رہی ہے۔ تاہم اس بار ایک غیر معروف شدت پسند گروپ ‘حکیم اللہ محسود کارواں’ نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔اس گروپ نے کچھ عرصہ قبل ٹی ٹی پی سے علیحدگی اختیار کر کے شمالی وزیرستان کے ایک اہم شدت پسند کمانڈر حافظ گل بہادر کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی۔ یہ گروہ اب ‘تحریک طالبان غزوۂ ہند’ کے ساتھ وابستہ ہے جس کی سربراہی حافظ گل بہادر کر رہے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں گروپس کے درمیان یہ رسہ کشی ایک دوسرے کے کمانڈروں کو اپنی صفوں میں شامل کرنے اور زیرِ اثر علاقوں میں اپنے قدم جمانے کی کوششوں کا تسلسل ہے۔
شدت پسند گروہوں میں بڑھتے اختلافات
رواں سال جنوری کے اوائل میں ٹی ٹی پی نے متعدد شدت پسند کمانڈروں کی اپنی تنظیم میں شامل کرنے کے اعلانات کیے تھے۔ان میں شمالی وزیرستان کے ایک اہم شدت پسند کمانڈر علی داوڑ بھی شامل تھے جو ابتدا ہی سے حافظ گل بہادر گروہ سے وابستہ رہے اور اس کے تحت کام کرنے والے ‘جیشِ عمری’ دھڑے کے کمانڈر تھے۔ماہرین اور قبائلی عمائدین کے مطابق علی داوڑ کی ٹی ٹی پی میں شمولیت حافظ گل بہادر کے لیے 2020 کے بعد پہلا بڑا دھچکا ہے۔ اس سے قبل 2020 میں ان کے نائب کمانڈر حلیم خان بھی ٹی ٹی پی کا حصہ بن چکے تھے۔
ٹی ٹی پی کے مرکزی امیر مفتی نور ولی محسود نے تنظیم کے نئے ڈھانچے میں علی داوڑ اور حلیم خان کو 17 رکنی رہبری شوریٰ میں شامل کیا ہے۔ٹی ٹی پی کے اس اقدام کے ردعمل میں حافظ گل بہادر نے اپنے گروہ ‘تحریک طالبان غزوۂ ہند’ کو مضبوط اور وسیع کرنے کے لیے کئی اہم فیصلے کیے۔انہوں نے جنوبی وزیرستان کے محسود علاقوں سے ‘حکیم اللہ محسود کارواں’ منگل باغ کے گروہ لشکرِ اسلام، ڈیرہ اسماعیل خان کے گنڈا پور قبیلے اور کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے مفتی ابوزر بنگش نامی کمانڈروں کو اپنی صفوں میں شامل کرنے یا الحاق کرنے کا اعلان کیا۔اس کے علاوہ جیشِ عمری دھڑے کے لیے مولوی فاروق نامی شدت پسند کو نیا کمانڈر نامزد کیا گیا ہے۔
مبصرین کے مطابق اس نئے انضمام اور اتحادوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حافظ گل بہادر کا گروہ اپنے اثر و رسوخ کو شمالی وزیرستان اور بنوں جیسے روایتی گڑھ سے نکال کر جنوبی وزیرستان، خیبر، کوہاٹ اور حتیٰ کہ کراچی تک وسعت دینے کی کوشش کر رہا ہے۔خیال رہے کہ ٹی ٹی پی روایتی طور پر کراچی میں متحرک رہی ہے جب کہ موجودہ مرکزی امیرمفتی نور ولی ماضی میں کراچی کی امارت بھی سنبھال چکے ہیں۔ اس تناظر میں ہفتے کو کراچی میں پولیس پر ہونے والا حملہ حافظ گل بہادر گروہ کی جانب سے شہر میں پہلا باضابطہ حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔
پشاور میں مقیم صحافی رفعت اللہ اورکزئی گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان میں شدت پسند تنظیموں کو کور کرتے آ رہے ہیں۔ہمارے نمائندہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ٹی ٹی پی اورحافظ گل بہادر گروہ نے پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف مشترکہ حملے کیے اور یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ دونوں تنظیمیں آپس میں اتحاد کرسکتی ہے۔ان کے بقول "علی داوڑ کی ٹی ٹی پی میں شمولیت کے بعد حافظ گل بہادر گروہ نے اپنی تنظیم میں انضمام و اتحاد پر زور دیاہے جس سے لگ رہاہے کہ دونوں تنظیمیں اب رسہ کشی کررہی ہیں۔
قبائلی وابستگیوں پر مبنی کشمکش
سیکیورٹی ماہرین کے مطابق ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر گروہ کے درمیان تناؤ اور قبائلی وفاداریوں پر مبنی اختلافات 2007 سے موجود ہیں جب ملک کے مختلف حصوں میں سرگرم چھوٹے بڑے طالبان گروہ متحد ہو کر ٹی ٹی پی کے نام سے ایک تنظیم تشکیل دے رہے تھے۔ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر گروہ سے وابستہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس بارہا یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ انضمام اور کمانڈروں کی شمولیت سے کسی قسم کے تناؤ کو ہوا نہیں ملی کیوں کہ دونوں گروہ ایک ہی مقصد رکھتے ہیں۔ ایک ہی جہادی نظریے کی پیروی کرتے ہیں اور ان کے درمیان صرف حکمتِ عملی کا فرق ہے۔لیکن ماہرین کے مطابق زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔
ٹی ٹی پی بنیادی طور پر خیبر پختونخوا اور سابقہ قبائلی علاقوں کے مختلف اضلاع کے شدت پسندوں پر مشتمل ہےتاہم اس کی قیادت زیادہ تر محسود قبیلے سے وابستہ رہی ہے۔ موجودہ امیر مفتی نور ولی سمیت، بانی بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، ولی الرحمٰن محسود اور خان سعید سجنا سب محسود قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔سن 2013 میں امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد سوات سے تعلق رکھنے والے مولانا فضل اللہ شدت پسند گروہ کے سربراہ بنے تو متعدد قبائل کی سطح پرتشکیل دیے گئے حلقوں نے انہیں نیا امیر ماننے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد تنظیم شدید گروہ بندی کا شکارہو گئی تھی۔دوسری جانب حافظ گل بہادر گروہ بنیادی طور پر شمالی وزیرستان کے وزیر اور داوڑ قبائل پر مشتمل ہے اور اس نے ابتدا ہی سے ٹی ٹی پی میں ضم ہونے سے انکار کیا تھا۔
قبائلی اور نظریاتی پس منظر
صحافی رفعت اللہ اورکزئی کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر گروہ کے درمیان تقسیم دراصل وزیرستان خطے کے قبائلی اور نظریاتی پس منظر سے جڑی ہوئی ہے۔ان کے مطابق وزیرستان میں تاریخی محسود وزیر تناؤ ہی وہ بنیادی وجہ تھی جس کے باعث حافظ گل بہادر اور ملا نذیر بیت اللہ محسود کی قیادت میں ٹی ٹی پی میں شمولیت پر آمادہ نہیں تھے۔بنوں کے ایک مدرسے سے وابستہ ایک مذہبی رہنما ان گروہوں کے درمیان تاریخی تنازعات کے عینی شاہد رہے ہیں۔سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اُنہوں نےبتایا کہ دسمبر 2007 میں ٹی ٹی پی کی تشکیل کے وقت حافظ گل بہادر اور ملا نذیر نے تجویز دی تھی کہ تنظیم کا پہلا امیر باجوڑ، مہمند یا سوات سے ہونا چاہیے۔ تاہم محسود قبائل کے شدت پسندوں نے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت شمالی وزیرستان میں افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک کی مداخلت کے بعد ‘شوریٰ اتحاد مجاہدین’ قائم کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس میں ٹی ٹی پی، حافظ گل بہادر اور ملا نذیر گروہ شامل تھے۔تاہم یہ اتحاد زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکا کیوں کہ حافظ گل بہادر اور ملا نذیر اس وقت پاکستانی حکومت کے قریب سمجھے جاتے تھے اور وہ پاکستان میں حملے کرنے کے بجائے اپنی کارروائیاں صرف افغانستان تک محدود رکھنا چاہتے تھے۔ان کے بقول "اسی وجہ سے اس وقت حافظ گل بہادر کو ‘گڈ طالبان’ جب کہ ٹی ٹی پی کو ‘بیڈ طالبان’ کہاجاتا تھا مگر اب تو سارے ریاست مخالف ہونے کی وجہ سے ‘بیڈ طالبان’ ہوگئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ علی داوڑ کا ٹی ٹی پی میں شامل ہونا، مفتی نور ولی کی اس حکمتِ عملی کی کامیابی کو ظاہر کرتا ہے جس کے تحت وہ قبائلی تقسیم کو کم کر کے دیگر قبیلوں خصوصاً وزیر اور داوڑ قبائل کے جنگجوؤں کو ٹی ٹی پی میں شامل کر رہے ہیں۔خیال رہے کہ ماہرین متعدد بار نشاندہی کر چکے ہیں کہ مفتی نور ولی تنظیمی ڈھانچے میں مسلسل تبدیلیاں کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کو روایتی قبائلی ڈھانچے سے نکال کر شہری گوریلا حکمت عملی کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی کے تحت تنظیم میں قیادت اور ذمہ داریوں کی تقسیم قبائلی وابستگی کے بجائے تنظیمی بنیادوں پر کی جا رہی ہے تاکہ قبائلی اختلافات کے باعث اندرونی انتشار سے بچا جا سکے۔