بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی دھمکیاں اور اسکا حل

کوئٹہ — "ہمارےپاس ایندھن اور جانور چرانے کے لیے یہ پہاڑ ہی واحد ذریعہ ہے مگر اب ہمیں پہاڑ پر جانے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔”یہ الفاظ بلوچستا ن کے ضلع بارکھان کی یونین کونسل دامان بغاو کے ایک مقامی شخص کےہیں جنہوں نے سیکیورٹی خدشات کے باعث اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "گزشتہ دنوں بارکھان کی ایک بستی وڈیرہ صدیق میں کچھ مسلح لوگ آئے جن کا تعلق کسی کالعدم عسکریت پسند تنظیم سے تھا۔انہوں نے بتایا کہ ان مسلح افراد کی تعداد تقریباً آٹھ کے قریب تھی۔ وہ پہلے علاقے کے وڈیرے کے پاس گئے اور انہیں ساتھ لے کر گاؤں کا دورہ کیا۔مقامی شخص کے بقول مسلح افراد نے بستی میں گھر گھر کا دورہ کیا لوگوں سے ملاقاتیں کی اور انہیں یہ وراننگ دی کہ آج کے بعد گاؤں کے مرد اور خواتین قریبی پہاڑ پر جانور چرانے اور لکڑیاں کاٹنے نہیں آئیں گے۔
وہ لوگ کہہ رہے تھے کہ جو بھی پہاڑ کی جانب آیا اپنا ذمے دار وہ خود ہو گا
بارکھان بلوچستان کا ایک ضلع ہے جو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً 485 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔مقامی افراد جن پہاڑوں کا ذکر رہے ہیں وہ کوہلو ، میختر اور چمالانگ کے پہاڑی سلسلوں لاکھا گھٹ اور بوڑی شیر خان کے پہاڑی سلسلے ہیں ۔اس گاوں میں گیس اور بجلی کی سہولت موجود نہیں اور لوگ ایندھن کے لیے انہی پہاڑوں سے لکڑیاں توڑ کر لاتے ہیں۔مسلح افراد کی جانب سے اس طرح کی دھمکیوں کے باعث مقامی لوگ شدید خوف و ہراس کا شکار ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ پہاڑ سے لکڑیاں توڑ کر نہیں لائیں گے تو ان کے پاس ایندھن کے لیے کوئی دوسرا ذریعہ نہیں رہے گا۔ان کے بقول مسلح افراد کی اس طرح کی دھمکی سے علاقے میں 20 سے 25 ہزار افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔دوسری جانب مقامی لیویز سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ لیویز فورس حالیہ واقعہ کی تحقیقات کر رہی ہے اور اس سلسلے میں عوام کو تحفظ دیں گے۔
یاد رہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے ۔ گزشتہ چند برسوں سے بلوچستان میں کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے پہاڑوں سے اتر کر شہری علاقوں میں گشت کرنے اور قومی شاہراہوں پر ناکہ لگانے جیسے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔اس سے قبل کالعدم عسکریت پسندوں نے گزشتہ سال فروری میں سیکیورٹی فورسز پر حملہ کے دوران مچھ شہر میں گشت کیا اور مساجد سے اعلانات کرتے رہے۔سال 2024 میں ہی ایک اور واقعے میں علیحدگی پسند تنظیم کے مسلح افراد ضلع مستونگ کے شہر میں جاری شادی کی ایک تقریب میں داخل ہوئے وہاں جاری موسیقی کا پروگرام بند کرایا اور وہاں موجود اجتماع سے خطاب بھی کیا۔اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ رواں سال جنوری میں بلوچستان کے ضلع خضدار کے زہری ٹاؤن میں پیش آیا جس کے دوران مسلح افراد نے لیویز تھانے، نادرا آفس سمیت دیگر املاک کو نذرِ آتش کر دیا تھا۔زہری ٹاؤن میں باقاعدہ طور پر مسلح افراد نے عوام کو دن دیہاڑے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "تمہارے ہاتھوں میں موبائل کے بجائے آج ہماری طرح بندوق ہونی چاہیے تھی۔وہاں موجود لوگ پہلے تو لوگ خوف کا شکار ہو گئے تاہم بعد میں عام شہریوں نے ان کے ہمراہ سیلفی لینا شروع کی اور ان کی ویڈیوز بنانا شروع کر دیں۔
اس کے علاوہ گزشتہ دو برسوں کے دوران کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قومی شاہراہوں پر ناکہ لگانے اور سیکیورٹی فورسز پر حملے کے متعدد واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اور عسکری اداروں کو مل بیٹھ کر اس معاملے پر غور کرنا چاہیے کیوں کہ بلوچستان میں امن و امان کے مسائل پہلے ہی شدت اختیار کر چکے ہیں۔ اب مزید تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔
یہ لوہار کا کام نہیں بلکہ سنار جیسی پیچیدگی درکار ہے
سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ صرف دہشت گردی یا فوجی نوعیت کا نہیں ہے بلکہ اس میں سیاسی اور اقتصادی عوامل شامل ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جو سیاسی تحریکیں چل رہی ہیں ان میں سیاسی عناصر اور پاکستان مخالف عناصر کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ممکن نہیں۔اُن کے بقول "ان تمام عناصر کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جانا چاہیے۔اُن کا کہنا تھا کہ "میری رائے میں بلوچستان کا مسئلہ بہت نازک ہے، یہ کسی لوہار کا کام نہیں ہے بلکہ سنار کی پیچیدہ کاریگری جیسا معاملہ ہے جسے بڑی احتیاط سے حل کرنا چاہیے۔اس کے لیے پاکستان اور بلوچستان کے سینئر سیاست دانوں کو اکٹھا ہو کر ایسی تنظیموں سے بات کرنا ہو گی جنہوں نے اپنا سیاسی چہرہ بنا رکھا ہے۔اُن کے بقول اگر یہ سمجھا جائے کہ بلوچستان کا مسئلہ صرف فوج یا صرف سیاست دان ہی حل کر سکتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر کام کریں تو یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہو گا۔اُن کے بقول بلوچستان کے حقیقی نمائندوں کو حکومت دی جائے اور وفاق کے فراہم کردہ وسائل کو حقیقی معنوں میں عوام پر خرچ کیا جائے تب ہی دیرپا حل ممکن ہو گا۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار رشید بلوچ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں بی ایل اے اور دیگر تنظیموں کی جانب سے کارروائیوں میں اضافے سے بظاہر لگتا ہے کہ ان کی افرادی قوت اور وسائل میں اضافہ ہوا ہے۔رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے رشید بلوچ کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال کے دوران صوبے میں بد امنی کے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 2024 میں بی ایل اے کی جانب سے بیک وقت 18 سے 20 مقامات پر حملے کیے گئے۔اس سے قبل مچھ میں بھی حملہ آور دن کی روشنی میں شہر میں داخل ہوئے اور گلی محلوں میں گھومتے پھرتے دکھائی دیے۔زہری واقعے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ یہ واقعہ سیکیورٹی لیپس کی وجہ سے رونما ہو ا ہو تاہم بلوچستان کے دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کے لیے ہر جگہ سیکیورٹی فراہم کرنا ناممکن ہے۔ان کے بقول بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں مسلح تنظیموں کو پہاڑی سلسلے کے باعث کافی سپورٹ ملتی ہے۔
تاہم بلوچستان کے سابق بیورکریٹ شیر خان بازئی کہتے ہیں کہ اس طرح کی کارروائیاں سیکیورٹی نہیں بلکہ اس میں انٹیلی جینس ناکامی کا کچھ عنصر ضرور شامل ہوسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پے در پے بدامنی کے واقعات کی بنیادی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عسکری پسند تنظیموں نے اپنی کارروائیوں کا طریقۂ کار تبدیل کردیا ہے اور ان کی جانب سے سیکیورٹی فورسز کو انگیج کرنے کی ایک کوشش کی گئی ہے کیوں کہ بیک وقت صوبے کے مختلف علاقوں میں حملے کیے جا رہے ہیں۔انہو ں نے مزید کہا کہ گو کہ بلوچستان میں قیادت اور سیاسی خلا برقرار ہے جس کا فائدہ علیحدگی پسند تنظیموں کو ہو رہا ہے ۔ عوام جو پہلے ان تنظیموں کو اسپیس نہیں دے رہی تھی اب شاید وہ عوام کے قریب آنے کی کوشش کررہے ہیں ۔پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت گزشتہ دنوں کمانڈرز اجلاس میں بلوچستان میں امن کے تحفظ کے عز م کا اعادہ کیا گیا ہے۔یاد رہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی نے بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہر کے بعد کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف ایک جامع فوجی آپریشن کی منظوری دی تھی ۔وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی یہ کہہ چکے ہیں کہ ریاست کی رٹ برقرار رکھی جائے گی جب کہ علیحدگی پسند تنظیمیں حملے جاری رکھنے کا عندیہ دے رہی ہیں۔