افغان طالبان کی ٹی ٹی پی کی حمایت کے باعث پاکستان میں حملے بڑھ گئے، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی حمایت بند کرنے کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے باوجود افغان طالبان کی مسلسل حمایت پاکستان میں اس گروپ کے بڑھتے ہوئے حملوں کو ہوا دے رہی ہے۔رپورٹ کے مطابق یہ بات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی تجزیاتی معاونت اور تعزیرات کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی 35ویں رپورٹ میں کہی گئی۔تجزیاتی معاونت اور تعزیرات کی نگرانی کرنے والی ٹیم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے قائم کردہ آزاد ماہرین کا ایک پینل ہے جو القاعدہ، دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) اور اس سے وابستہ گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور اداروں کے خلاف پابندیوں کے نفاذ میں مدد فراہم کرتا ہے۔
ٹیم بین الاقوامی پالیسی اور سلامتی کی حکمت عملی تشکیل دینے کے لیے ان تنظیموں کی طرف سے درپیش خطرے کے منظرنامے کا جائزہ لینے کے لیے 2 سالانہ رپورٹ پیش کرتی ہے۔یکم جولائی سے 13 دسمبر 2024 تک کی مدت کا احاطہ کرنے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی حیثیت اور طاقت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، جب کہ اس گروپ نے پاکستان پر اپنے حملوں میں اضافہ کیا، رپورٹنگ کے دوران 600 سے زائد حملے کیے جن میں سے زیادہ تر افغان علاقے سے کیے گئے۔
مالی، آپریشنل حمایت
بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ افغان طالبان کالعدم ٹی ٹی پی کو لاجسٹک اور آپریشنل جگہ اور مالی مدد فراہم کرتے رہے، جس سے گروپ کی اپنی سرگرمیوں کو برقرار رکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی رہنما نور ولی مسعود کے اہل خانہ کو افغان طالبان سے ہر ماہ تقریباً 43 ہزار ڈالر ملتے ہیں، جو دہشت گرد گروپ کے لیے اہم سطح کی مالی معاونت کی عکاسی کرتا ہے۔ٹی ٹی پی نے کنڑ، ننگرہار، خوست اور پکتیکا (برمل) صوبوں میں نئے تربیتی مراکز بھی قائم کیے ہیں، جب کہ افغان طالبان کی صفوں کے اندر سے بھرتیوں میں اضافہ کیا ہے۔اس توسیع نے ٹی ٹی پی کو افغانستان میں قائم سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم کے طور پر مسلسل درجہ دیا ہے ، جس میں ایک اندازے کے مطابق 6 ہزار سے ساڑھے 6 ہزار جنگجو ہیں۔
اس گروپ کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ افغان طالبان کے ٹی ٹی پی کے ساتھ مسلسل نظریاتی اور تاریخی تعلقات سے جڑا ہوا ہے۔بڑھتے ہوئے حملوں کے درمیان، پاکستان نے ’عظمت استحکام‘ کے تحت فوجی کارروائیوں کو تیز کر دیا ہے، جس میں افغان سرحد کے پار، خاص طور پر پکتیکا اور خوست میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان فوجی اقدامات میں سرحد پار چھاپے اور جوابی حملے شامل ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے سفارتی روابط کو آگے بڑھایا اور افغان طالبان پر زور دینے کے لیے کابل میں وفود بھیجے کہ وہ ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کریں۔ تاہم، افغان حکام فیصلہ کن اقدامات کے بجائے ثالثی کی تجویز پیش کرنے سے گریزاں رہے جس کی وجہ سے سفارتی تعطل پیدا ہوا۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ان پیش رفتوں کی تصدیق کی گئی ہے، جس میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ طالبان کی حمایت نے ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف اپنی جارحانہ حکمت عملی کو تیز کرنے کے قابل بنایا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان پر ٹی ٹی پی کے حملوں کے عزائم اور پیمانے میں نمایاں اضافہ ہوا تھا۔
القاعدہ برصغیر (اے کیو آئی ایس) اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے ساتھ تعاون میں اضافے سے ٹی ٹی پی کی آپریشنل صلاحیتوں کو مزید تقویت ملی ہے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ یہ تنظیمیں تحریک جہاد پاکستان (ٹی جے پی) کے جھنڈے تلے حملے کر رہی ہیں۔رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ ان دہشت گرد گروہوں کے درمیان تعاون میں اضافہ، جس میں خودکش بمباروں اور جنگجوؤں اور نظریاتی رہنمائی کی فراہمی شامل ہے، ٹی ٹی پی کو غیر ’علاقائی خطرہ‘ اور ممکنہ طور پر جنوبی ایشیا میں سرگرم دیگر دہشت گرد گروہوں کے لیے ایک چھتری تنظیم میں تبدیل کر سکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اپنے مجید بریگیڈ کے ذریعے رپورٹنگ کے دوران آواران، پنجگور اور دالبندین سمیت جنوب مغربی پاکستان میں متعدد بڑے حملے کیے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ مجید بریگیڈ نے خواتین کو اپنی صفوں میں شامل کیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجید بریگیڈ کے کالعدم ٹی ٹی پی، اسلامک اسٹیٹ خراسان (آئی ایس کے) اور ای ٹی آئی ایم/ ٹی آئی پی کے ساتھ رابطے ہیں، اور افغانستان میں اپنے آپریشنل اڈوں میں ان گروہوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔
روایتی طور پر نسلی قوم پرست مقاصد کی پیروی کرنے والے بی ایل اے اور ٹی ٹی پی جیسے مذہبی طور پر متاثر دہشت گرد گروہوں کے درمیان یہ ابھرتا ہوا گٹھ جوڑ مفادات کے تذویراتی ہم آہنگی کی نشاندہی کرتا ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے پاکستان میں اپنا نیٹ ورک قائم کرنے کی داعش کی کوششوں کو ایک بڑا دھچکا دیتے ہوئے 3 ہائی پروفائل کارندوں کو گرفتار کیا۔اس سے قبل ان کی گرفتاری کا اعلان پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے نہیں کیا گیا تھا، جو ان کی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی باقاعدگی سے تشہیر کرتی ہیں۔رپورٹ میں پنج شیری کو آئی ایس کے، کے لیے ٹریول اینڈ لاجسٹکس کا کوآرڈینیٹر بتایا گیا ہے، جب کہ منزیر نے وسطی ایشیا میں بھرتی نیٹ ورکس کا انتظام کیا، یونس کی شناخت دہشت گردی کی سرگرمیوں کے ایک اہم مالی اعانت کار کے طور پر کی گئی تھی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان گرفتاریوں کے باوجود طارق تاجک، جسے کرمان حملے کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے، افغانستان میں مفرور ہے۔رپورٹ کے مطابق، داعش خراسان نے نشاندہی سے بچنے اور مزید گرفتاریوں کو کم سے کم کرنے کے لیے ہدایات کی فراہمی اور اجلاسوں کے انعقاد کے لیے الیکٹرانک مواصلات سے روایتی کوریئر نیٹ ورکس کا رخ کیا ہے۔