کانگو میں بچوں کی صورتحال پر "یونیسف” کو گہری تشویش

image1170x530cropped.jpg

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے متنبہ کیا ہےکہ جمہوری کانگو (ڈی آر سی) میں بڑھتے ہوئے تشدد کے باعث جنسی تشدد، زیادتی اور بچوں کی ہلاکتوں میں خطرناک شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ادارے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے بچوں پر اس تنازع کے تباہ کن اثرات کی بابت گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبہ شمالی اور جنوبی کیوو میں متحارب فریقین کی جانب سے بچوں کے حقوق کی سنگین پامالی ہو رہی ہے جس کی حالیہ برسوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔بین الاقوامی غیرسرکاری ادارے ‘سیو دی چلڈرن’ کے مطابق، صوبہ اتوری میں سوموار کو 52 افراد کی ہلاکت ہوئی جن میں کم از کم 28 بچے بھی شامل ہیں۔ یہ ہلاکتیں تیز دھار اسلحے اور بندوقوں کی فائرنگ سے ہوئیں۔ مسلح افراد نے بہت سے لوگوں کے گھروں کو بھی نذر آتش کر دیا جبکہ ایسے واقعات میں لوگوں کے زندہ جلنے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔

جنسی تشدد اور زیادتی

ادارے نے بتایا ہے کہ بچوں کے اغوا اور ان کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ 27 جنوری سے 2 فروری کے درمیانی ایام میں یونیسف کے 42 طبی مراکز میں آنے والی ایسی خواتین اور لڑکیوں کی تعداد میں پانچ گنا اضافہ دیکھا گیا جنہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور ان میں 30 فیصد تعداد نوعمر لڑکیوں کی تھی۔کیتھرین رسل نے کہا ہے کہ متاثرین کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سی خواتین خوف کے مارے سامنے نہیں آنا چاہتیں جبکہ امدادی اداروں کے پاس انہیں ایچ آئی وی انفیکشن سے بچانے کے لیے درکار ادویات کی قلت کے باعث سبھی کو طبی سہولیات کی فراہمی آسان نہیں رہی۔جنگ میں بہت سے بچے اپنے خاندانوں سے بچھڑ گئے ہیں جنہیں بدسلوکی اور استحصال کا نشانہ بنائے جانے کا خطرہ ہے۔ دو ہفتوں کے دوران شمالی اور جنوبی کیوو میں ایسے 1,100 بچوں کی نشاندہی ہوئی جبکہ یہ تعداد متواتر بڑھ رہی ہے۔

بچہ سپاہیوں کی بھرتی

ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ ملک کے جنگ زدہ علاقوں میں مسلح گروہوں کی جانب سے کم از کم 4,006 بچوں کو جنگی مقاصد کے لیے بھرتی کیے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جن میں 12 سال تک عمر کے بچے بھی شامل ہیں۔ لڑائی میں شدت آنے کے بعد اس تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔انہوں نے متحارب فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ بچوں کے حقوق کی اس سنگین پامالی کو روکیں اور شہریوں کو تحفظ دینے کے لیے بین الاقوامی قانون کی مطابقت سے ٹھوس اقدامات کریں۔

حاملہ خواتین کے مصائب

جنسی و تولیدی صحت کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایف پی اے) نے کہا ہے کہ لڑائی اور تشدد سے حاملہ خواتین بھی ہولناک طور سے متاثر ہو رہی ہیں۔ ایسی بہت سی خواتین کو پناہ کی تلاش میں کئی مرتبہ نقل مکانی کرنا پڑی ہے اور وہ ایسے گنجان آباد کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں طبی سہولیات تک رسائی بہت محدود ہے۔حالیہ بحران سے پہلے ہی ملک میں حاملہ خواتین کے لیے طبی سہولیات بہت کم تھیں جن میں اب بہت بڑے پیمانے پر اضافہ ہو گیا ہے۔ جنگ زدہ صوبوں میں ایک تہائی ہسپتال اور 20 فیصد بنیادی طبی مراکز ہی فعال رہ گئے ہیں۔ ان حالات میں بہت سی خواتین کے لیے ‘یو این ایف پی اے’ کے متحرک کلینک ہی طبی مدد کے حصول کا واحد ذریعہ ہیں۔ادارے نے بتایا ہے کہ شمالی اور جنوبی کیوو میں حاملہ خواتین کی تعداد تقریباً 220,000 ہے جن میں 12 ہزار سے زیادہ بے گھر ہیں جنہیں کسی طرح کی کوئی طبی مدد میسر نہیں۔ 88 ہزار سے زیادہ خواتین اور لڑکیوں کو صنفی بنیاد پر تشدد کا خدشہ لاحق ہے جبکہ طبی خدمات کی فراہمی بند ہو جانے سے ان چاہے حمل میں بھی اضافہ متوقع ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے