ملک ریاض کے گرد "گھیرا” تنگ مگر کیوں ؟

Malik-riaz-1.jpg

معروف پراپرٹی ٹائيکون اور بحريہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض ان دنوں متحدہ عرب امارات ميں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہيں۔ حال ہی ميں انہوں نے دبئی ميں ايک پر تعيش ہاؤسنگ سوسائٹی لانچ کرنے کا اعلان کيا۔ملک ریاض کے اس اعلان سے جہاں پراپرٹی کی خریداروں میں ہلچل دیکھی جا رہی ہے، وہیں پاکستان میں ان کے خلاف نئے مقدمات بھی قائم کیے گئے ہیں۔ اب اطلاعات ہیں کہ حکومت ان کا پاسپورٹ منسوخ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور ساتھ ہی متحدہ عرب امارات سے انہيں ڈی پورٹ کروا کر پاکستان لانے کے لیے بات چيت بھی کی جا رہی ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ملک ریاض اپنے خلاف جاری مقدمات کی سماعت سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔

قومی احتساب بيورو نيب نے اپنی ايک پريس ريليز ميں نہ صرف متحدہ عرب امارات ميں ملک ریاض کے اس نئے منصوبے پر تحفظات کا اظہار کيا ہے بلکہ ساتھ ہی اس منصوبے کو ملک رياض کی منی لانڈرنگ کی آمدن کا ایک حصہ بھی قرار ديا ہے۔ ساتھ ہی اس حوالے سے قومی احتساب بيورو (نيب) نے گزشتہ دس سال سے تعطل کا شکار تحقيقات کی روشنی ميں عدالت ميں بحريہ ٹاؤن کو کراچی ميں قيمتی زمين کوڑيوں کے دام الاٹ کرنے پر تين ريفرنس بھی دائر کر ديے ہیں۔ملک رياض اپنےحاليہ ميڈيا انٹرويوز میں ان ريفرنسز کو حکومت کی انتقامی کارروائی قرار ديتے رہے ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت انہيں تحريک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانا چاہتی ہے۔

کیا پاکستانی سياست ميں بحريہ ٹاؤن اور اس کے روح رواں ملک رياض بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں؟ اس سوال کے جواب کا اندازہ، اگر غور کريں تو صاف طور پر ان کے تمام سياسی جماعتوں کے قائدين سے مراسم کو ديکھ کر باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ ملک رياض کی خصوصی صلاحيت یہ ہے کہ وہ بیک وقت صدر آصف زرداری، سابق وزير اعظم نواز شريف اور عمران خان کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں کے ساتھ بھی اچھے مراسم رکھتے ہيں۔

مقدمات اور ریفرنس

قومی احتساب بيورو کی عدالت ميں دائر کردہ ريفرنس ميں بحريہ ٹاؤن کے مالک ملک رياض اور ان کے صاحبزادے علی رياض پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے اس وقت کی سندھ حکومت کی مبینہ ملی بھگت سے 700 ارب روپے ماليت کی قيمتی سرکاری زمين کوڑيوں کے مول خريد کر بحريہ ٹاؤن کراچی کی تعميرکی۔ اس ريفرنس ميں 33 افراد نامزد ہیں۔اس ريفرنس کی ایک خاص بات يہ بھی ہے کہ اس ميں پيپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزير اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ، اس وقت کے وزير بلديات اور موجودہ صوبائی وزير اطلاعات شرجيل انعام ميمن کے نام بھی شامل ہیں۔ريفرنس کے مطابق سندھ حکومت کی سفارش پر تمام اصولوں اور ضابطوں کو نظرانداز کر کے راتوں رات بحريہ ٹاؤن کو زمين الاٹ کر دی گئی تھی۔

کراچی کے سابق ایڈمنسٹریٹر فہيم زمان نے بحريہ ٹاؤن کو سندھ حکومت کی جانب سے خلاف ضابطہ زمين ديے جانے کے حوالے سے ہمارے نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ اور طاقتور سياسی شخصيات کی مدد کے بغير بحريہ ٹاؤن کراچی کو صرف ايک روز ميں ہزاروں ايکٹر قيمتی سرکاری زمين الاٹ ہو ہی نہيں سکتی تھی۔فہيم زمان کا دعویٰ ہے کہ ملک رياض اور ان کے بيٹے علی رياض کا دس سال کا برطانوی وزٹ ويزا منسوخ ہونے کی وجہ بھی ان کا مبینہ طور پر کرپشن اور منی لانڈرنگ ميں ملوث ہونا بنا۔ لندن کی ایک عدالت کے فيصلے ميں ويزے کی منسوخی کی وجوہات میں ملک ریاض اور ان کے صاحبزادے کی کرپشن اور منی لانڈرنگ سے متعلق سرگرمیوں کو تفصیل سے موضوع بنایا گیا ہے۔

راؤ انوار کے صدر زرداری پر الزامات کيوں؟

بحريہ ٹاؤن اور اس کی تعمير ميں جب بھی سندھ حکومت کی مبینہ مجرمانہ غفلت اور کرپشن کی بات ہو، تو وہاں سندھ پوليس کے متنازعہ سابق ايس ايس پی ملير راؤ انوار کا ذکر ضرور آتا ہے۔ وہ جب تک سندھ پوليس کا حصہ رہے، پيپلز پارٹی کی قيادت کی آنکھ کا تارا تھے۔ مگر ريٹائرمنٹ کے بعد وہ جیسے پھٹ پڑے۔ راؤ انوار نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پيپلز پارٹی کی قيادت پر کرپشن اور سرکاری زمينوں پر قبضوں کے سنگين الزامات لگائے۔انہوں نے کہا کہ بہ حيثيت ايس ايس پی ملير بحريہ ٹاؤن ان کے دائرہ اختيار ميں ضرور آتا تھا، مگر وہ ملک ریاض سے اس وقت واقف ہوئے، جب اس منصوبے کے آغاز پر آصف زرداری نے انہیں فون پر ملک ریاض کا ”خیال رکھنے‘‘ کا کہا۔راؤ انوار نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے ”لوٹ مار اور کرپشن کے پیسوں سے بیرون ملک جائیدادیں بنائیں ہیں۔‘‘ انوار نے تاہم صدر زرداری اور پیپلز پارٹی سے اپنی ناراضی کی وجہ نہیں بتائی۔
راؤ انوار نے بتايا کہ سن 2018 ميں ايف آئی اے نے جو جوائنٹ انٹیروگیشن رپورٹ تيار کی تھی، اس ميں انکشاف ہوا تھا کہ مبینہ طور پر آصف زرداری نے ملک رياض کو فائدہ پہنچايا تھا۔راؤ انوار کے ان الزامات پر وزیراطلات سندھ شرجیل میمن اور ترجمان سندھ حکومت سے ان کی رائے لینے کے لیے متعدد مرتبہ درخواست کی گئی، تاہم ان کا کوئی جواب موصول نہ ہوا۔

سیاست اور کاروباری شخصیات

سیاسی تجزيہ نگار مظہر عباس نےنمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 1990 کی دہائی میں پہلی بار ملک رياض کا نام سامنے آیا کیوں کہ اس وقت متعدد کاروباری شخصیات سیاست میں فعال ہوئی تھیں۔انہوں نے کہا کہ ماضی ميں فوجی خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے کہنے پر مشہور بینکر یونس حبیب کے ہاتھوں مہران بینک کے ذریعے 90 کروڑ روپے سياست دانوں ميں تقسيم کرنے کا معاملہ سامنے آيا تھا اوراب 190 ملين پاؤنڈ کی رقم القادر ٹرسٹ کے نام پر عمران خان کو دينے کا الزام ہے۔ مگر اب نيب نے بحريہ ٹاؤن کو کراچی ميں زمين الاٹ کرنے پر ريفرنس دائر کر ديا ہے۔مظہر عباس نے کہا کہ ملک رياض کی شہرت سياست دانوں کو اپنا پرائيويٹ جہاز فراہم کرنے کے حوالے سے بھی ہے۔ ميڈيا ادارے بھی اشتہارات کی وجہ سے ان کے دباؤ ميں نظر آتے ہیں۔ ملک ریاض کا نام آصف زرداری، نواز شريف اور عمران خان کے ساتھ بھی جڑا، جس کی وجہ سے يہ تاثر نماياں ہوا کہ وہ ممکنہ طور پر حکومتيں گرانے اور بگاڑنے ميں بھی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے