صدر "اردگان” کا دورۂ پاکستان اور مشرق وسطیٰ سے متعلق حکمتِ عملی

ترکی کے صدر طیب اردگان گزشتہ شب اپنے مختصر دورہ پاکستان کے لیے اسلام آباد آ چکے ہیں اسلام آباد پہنچنے پر انکا استقبال صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے کیا۔ اپنے مختصر دورے میں وہ پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ پاکستان-ترکیہ اعلیٰ سطحی اسٹریٹجک تعاون کونسل کےساتویں اجلاس کی مشترکہ صدارت کریں گے۔ وہ پانچ سال کے بعد پاکستان آئے ہیں اور دونوں اتحادی مشرق وسطیٰ کے لیے ایک نازک وقت میں اپنی اعلیٰ سطحی بات چیت کا انعقادہ کر رہے ہیں۔
شام میں اسد حکومت کے خاتمے نے خطے میں انقرہ کی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے لیکن اس نے ترکیہ کو اسرائیل کے ساتھ ایک براہ راست مقابلے میں بھی ڈال دیا ہے، جس کی فوجیں شام کی سرزمین میں داخل ہو چکی ہیں۔عمر کریم برمنگھم یونیورسٹی میں محقق ہیں۔ وہ ترکیہ کی دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعلقات کے متعلق کہتے ہیں۔ترکی سمجھتا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک کے ساتھ دفاعی اوراسٹرٹیجک تعلقات میں اضافہ، جو پہلے ہی ایک مسلمہ درمیانے درجے کی دفاعی طاقت ہے، ترکیہ اور اس کے مفادات کے لیے کہیں زیادہ دلچسپی کا باعث ہو گی۔ جس کا ایک اہم پہلو، دو طرفہ دفاعی پروڈکشن ٹیکنالوجیز میں اشتراک اور انہیں سیکھنا ہے۔
شام میں خانہ جنگی نے پاکستان اور افغانستان میں عسکریت پسندی پر بھی گہرا اثر ڈالاہے۔ ان ممالک کے جنگجو شامی ملیشیاؤں کے ساتھ مل کر لڑے ہیں۔ لیکن اسلامک اسٹیٹ خراسان یا ISIS-K نے،جو دہشت گرد تنظیم داعش (اسلامک اسٹیٹ) کی ایک علاقائی شاخ ہے، جنوبی ایشیا کے ان دو پڑوسی ملکوں میں مزید تشدد کو جنم دیا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب امریکہ کی جانب سے نامزد کردہ غیر ملکی دہشت گرد تنظیم، ہیت تحریر الشام یا ایچ ٹی ایس اب شام پر حکومت کر رہی ہے، سیکیورٹی مبصرین کا کہنا ہے کہ انقرہ اور اسلام آباد کو غیر ریاستی عناصر پر کنٹرول کرنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت ہے۔
افتخار فردوس خراسان ڈائری کے بانی ہیں، جو عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والا ایک آن لائن پلیٹ فارم ہے۔ان کا اس خطے پر اثرات کی بات کرتے ہوئے کہنا ہے کہ شیعہ ملیشاؤں اور اسی طرح غیر ریاستی عناصر اور سنی ملیشاؤں کی شام میں منقلی اور اب تنازعہ ختم ہونے کے بعد ان کی وہاں سے منتقلی میں ایک اہم کردار ادا کرے گی۔شیعہ ملیشیاؤں کے ساتھ ساتھ مختلف غیر ریاستی عناصر کی نقل و حرکت، سنی ملیشیاؤں کی جانب سے شام میں منتقل ہونے کے ساتھ، اور اب جب کہ یہ تنازعہ کم ہو گیا ہے، ان کی حتمی واپسی اور خطے پر اس کے اثرات ایک بہت بڑا کردار ادا کرنے جا رہے ہیں۔”
ایک ایسے وقت میں جب ترکیہ کے کارروباری رہنما اس سفر میں صدر اردوان کے ہمراہ ہیں سرمایہ کاری کے فروغ کے منصوبوں پر بات چیت متوقع ہے۔ تاہم دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تجارت میں اضافہ کرنے کے ماضی کے وعدوں کے باوجود اس کا سالانہ حجم ڈیڑھ ارب ڈالر کے قریب ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ترکی کی مشکلات کی شکار معیشتیں اہم شعبوں میں تعاون کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔
خرم شہزاد پاکستانی وزیر خزانہ کے مشیر ہیں۔ انہوں نے ان شعبوں کی نشاندہی کی ہے جہان دونوں ملکوں میں تعاون کی گنجائش ہے۔ایک ہے تعمیراتی اور بنیادی ڈھانچہ۔ ترک کمپنیاں پہلے ہی یہاں موجود ہیں۔ وہ ہاؤسنگ میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں، وہ سڑکوں پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں، وہ شہری منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ توانائی ایک اہم شعبہ ہے جہاں ہم مل کر کام کر سکتے ہیں، اور ایک اور اہم چیز جس میں ترکی نے مہارت حاصل کر لی ہے، اور ہم اس میں شامل ہو رہے ہیں وہ سیاحت ہے، ہمارے پاس اس میں بہت زیادہ امکان ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ واشنگٹن اس دورے کے بعدا سٹریٹجک تعلقات بالخصوص پاکستان اور ترکیہ کے درمیان جاری دفاعی پروڈکشن میں تعاون پر گہری نظر رکھے گا۔