شام کی اگلی حکومت يکم مارچ سے کام شروع کر دے گی، الشيبانی

Syrian-Foreign-Minister-Asad-Hassan-al-Sheibani.jpg

شام کی عبوری حکومت کے وزير خارجہ نے کہا ہے کہ آئندہ حکومت يکم مارچ سے اپنی ذمہ دارياں سنبھال لے گی۔ انہوں نے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات ميں بہتری کی ضرورت پر زور ديا اور پابنديوں کے خاتمے کا مطالبہ کيا۔شام ميں عبوری حکومت کے وزير خارجہ اسعد الشيبانی نے دعویٰ کيا کہ ان کے ملک ميں حکومت سازی کا عمل آئندہ ماہ اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔ متحدہ عرب امارات ميں جاری ‘ورلڈ گورنمنٹس سمٹ‘ سے خطاب کرتے ہوئے بدھ کو الشيبانی نے کہا، ”يکم مارچ سے کام شروع کرنے والی حکومت ہر ممکن کوشش کرے گی کہ تمام شامی عوام کی نمائندگی کرے اور ملک کے تنوع کا خيال رکھے۔‘‘

شام ميں مختلف مسلم انتہا پسند گروہوں نے مل کر پچھلے سال بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹ ديا تھا۔ عبوری حکومت کی قيادت محمد البشير نے سنبھال لی اور جس کی مدت يکم مارچ تک ہے۔ اسد حکومت کے خاتمے ميں ملوث مرکزی تحريک حيات التحرير الشام کے سربراہ احمد الشرح کو پچھلے ماہ ملکی صدر مقرر کر ديا گيا۔ انہيں يہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ شام پر کئی برس حکمرانی کرنے والی البعث پارٹی کے ساتھ ملک کر اسد دور کے بعد کے قانونی معاملات طے کريں۔ نئی انتظاميہ نے يہ بھی کہہ رکھا ہے کہ تمام شامی شہريوں کی نمائندگی کے ليے قومی سطح کا ڈائيلاگ شروع کيا جائے گا۔ تاہم ابھی تک اس کے ليے کسی تاريخ کا اعلان نہيں کيا گيا۔ اس ماہ ايک انٹرويو ميں احمد الشرح نے کہا تھا کہ انتخابات کرانے ميں پانچ سال تک لگ سکتے ہيں۔

شام کے ايران اور روس کے ساتھ تعلقات

عبوری حکومت کے وزير خارجہ اسعد الشيبانی نے کہا کہ سالہا سال تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران اسد حکومت کی حمايت کی وجہ سے شام کے ليے ايران اور روس کے ساتھ تعلقات ايک ‘کھلے زخم‘ کی مانند ہيں۔ تاہم دبئی ميں ‘ورلڈ گورنمنٹس سمٹ‘ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے عنديہ ديا کہ ماسکو اور تہران حکومتوں کے ساتھ کچھ مثبت پيش رفت بھی سامنے آئی ہے۔ انہوں نے اس بارے ميں تفصيل نہيں بتائی۔الشيبانی نے دمشق حکومت کے مغرب کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی خواہش اور ضرورت پر خاصی توجہ دی۔ انہوں نے شام پر عائد پابنديوں کے خاتمے کا مطالبہ کيا اور کہا کہ يہ چودہ برس کی جنگ کے بعد ملک ميں بحالی شروع کرنے کے ليے لازمی ہے۔دبئی ميں ‘ورلڈ گورنمنٹس سمٹ‘ ميں شامی حکومتی وزراء کی شرکت ایک بڑی پيش رفت ہے۔ سابق باغيوں نے بڑی تيزی کے ساتھ ملک کی ساکھ اور صورتحال ميں بہتری کے ليے کام کيا اور عالمی برادری کی تائيد حاصل کرنے کی کوششوں ميں ہيں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے