اقوامِ متحدہ کی حسینہ واجد کے مظالم پر مبنی تحقیقاتی رپورٹ جاری

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی سربراہی میں سابق حکومت نے اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے منظم حملے کیے اور مظاہرین کو قتل کیا، ان اقدامات کو ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کہا جاسکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال اگست میں طلبہ کی قیادت میں آنے والے انقلاب اور وزیر اعظم شیخ حسینہ کا تختہ الٹنے سے قبل ان کی حکومت نے مظاہرین اور دیگر کے خلاف کریک ڈاؤن کیا تھا، اس دوران ’سیکڑوں ماورائے عدالت قتل‘ کیے گئے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) نے کہا کہ ان کے پاس اس بات پر یقین کرنے کی معقول بنیاد ہے، کہ قتل، تشدد، قید اور دیگر غیر انسانی کارروائیوں کے نتیجے میں انسانیت کے خلاف جرائم ہوئے ہیں۔
تشدد کے بارے میں او ایچ سی ایچ آر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے کیے گئے یہ مبینہ جرائم، حسینہ واجد کی عوامی لیگ پارٹی اور بنگلہ دیشی سیکیورٹی اور انٹیلی جنس سروسز کے پرتشدد عناصر کے ساتھ مل کر مظاہرین اور دیگر شہریوں کے خلاف وسیع پیمانے پر اور منظم حملے کا حصہ تھے۔ہمسایہ ملک بھارت میں جلاوطنی اختیار کرنے والی 77 سالہ حسینہ واجد، پہلے ہی انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے بنگلہ دیش میں گرفتاری کے وارنٹ کی خلاف ورزی کر چکی ہیں۔حسینہ واجد کے ذاتی جرم کے بارے میں پوچھے جانے پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کے دفتر کو ’اس بات پر یقین کرنے کی معقول وجوہات ملی ہیں کہ درحقیقت سابق حکومت کے اعلیٰ حکام اس معاملے سے آگاہ تھے، درحقیقت اس میں ملوث تھے، یہ بہت سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔
ایک ہزار 400 افراد ہلاک
بنگلہ دیش کے عبوری رہنما محمد یونس (جنہوں نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر سے اپنا فیکٹ فائنڈنگ مشن شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا) نے اس رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے زور دیا کہ وہ بنگلہ دیش کو ایک ایسے ملک میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں، جہاں تمام شہری سلامتی اور وقار کے ساتھ رہ سکیں۔اقوام متحدہ کی تحقیقات میں گزشتہ سال یکم جولائی سے 15 اگست کے درمیان بنگلہ دیش میں ہونے والے واقعات کا جائزہ لیا گیا، جس میں متاثرین، عینی شاہدین اور دیگر افراد کے سیکڑوں انٹرویوز، تصاویر، ویڈیوز اور دیگر دستاویزات پر انحصار کیا گیا، ٹیم نے اس بات کا تعین کیا کہ سیکیورٹی فورسز نے بدامنی کے دوران حسینہ واجد کی حکومت کی حمایت کی تھی، جو سول سروس ملازمتوں کے ’کوٹا‘ کے خلاف احتجاج کے طور پر شروع ہوئی تھی اور پھر ان کے عہدے سے دستبردار ہونے کے وسیع تر مطالبات میں تبدیل ہوگئی۔او ایچ سی ایچ آر کا اندازہ ہے کہ 45 دن میں ایک ہزار 400 افراد ہلاک ہوئے ہوں گے، جن میں سے زیادہ تر کو بنگلہ دیش کی سیکورٹی فورسز نے گولیاں ماری تھیں، مرنے والوں میں 12 سے 13 فیصد بچے تھے، مجموعی ہلاکتوں کی تعداد بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے تازہ ترین اندازے سے کہیں زیادہ ہے جس میں 834 افراد ہلاک بتائے گئے ہیں۔
بڑے پیمانے پر ریاستی تشدد
وولکر ترک نے کہا کہ یہ وحشیانہ ردعمل سابق حکومت کی جانب سے عوامی مخالفت کے سامنے اقتدار پر قبضہ رکھنے کے لیے ایک سوچی سمجھی اور مربوط حکمت عملی تھی۔انہوں نے سیکڑوں ماورائے عدالت قتل، بڑے پیمانے پر من مانی گرفتاریوں اور حراست اور تشدد اور بدسلوکی کے نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر ریاستی تشدد اور ٹارگٹ کلنگ کی پریشان کن تصویر کی مذمت کی۔انسانی حقوق کے دفتر کو بڑے پیمانے پر صنفی بنیاد پر تشدد اور بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور قتل کے اشارے بھی ملے ہیں۔دوسری جانب رپورٹ میں پولیس اور عوامی لیگ کے عہدیداروں یا حامیوں کے خلاف ہجوم کے تشدد اور دیگر سنگین جوابی تشدد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔بنگلہ دیشی انسانی حقوق کی تنظیم اودھیکار کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد کی برطرفی کے بعد سے اب تک ایک درجن افراد حراست میں ہلاک ہو چکے ہیں، ان معاملوں کے بارے میں پوچھے جانے پر وولکر ترک نے کہا کہ ان کے دفتر نے صرف اگست کے وسط تک کی صورتحال کا جائزہ لیا تھا۔