پاکستان کے نظامِ انصاف پر عالمی شکنجہ یا جائز احتساب؟

476790439_10162737707745948_6410247683156702405_n.jpg

پاکستان کا “قوم پرست” مرکزی دھارے کا میڈیا اور سوشل میڈیا اچانک ایک آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑا ہے، جس میں قوم پرستی اور سامراج مخالف بیانیہ بھرپور طریقے سے گونج رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کا ایک تین رکنی وفد اس وقت پاکستان میں موجود ہے تاکہ ملک کے انتظامی، عدالتی، اور قانون سازی کے نظام کا جائزہ لے سکے۔ اس کا مقصد یہ جانچنا ہے کہ آیا پاکستان بین الاقوامی کثیرالملکی اداروں سے کیے گئے اپنے سابقہ وعدوں پر عمل کر رہا ہے یا نہیں۔ بہت سے لوگ اسے ایک بے مثال اور براہِ راست مداخلت قرار دے رہے ہیں، جس نے ایک شدید بحث چھیڑ دی ہے۔

کیا آئی ایم ایف کی یہ مداخلت واقعی غیرمعمولی ہے؟

تاہم پاکستان میں آئی ایم ایف کے گورننس اور کرپشن تشخیصی جائزے کو مکمل طور پر ایک نئی پیش رفت قرار دینا درست نہیں ہوگا، کیونکہ یہ جاری ای ایف ایف (Extended Fund Facility) اصلاحات کا حصہ ہے۔ اسی طرح کے جائزے یوکرین اور موزمبیق جیسے ممالک میں بھی کیے جا چکے ہیں۔ پاکستان کے 3 ارب ڈالر اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (SBA) 2023 کے تحت گورننس اصلاحات کی شرائط رکھی گئی تھیں۔ عام طور پر، آئی ایم ایف کے پروگرام مالیاتی امور پر مرکوز ہوتے ہیں، لیکن اس بار عدلیہ کی آزادی، قانون کی حکمرانی، اور بدعنوانی کی گہری سکروٹنی ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کی گورننس پر بین الاقوامی نگرانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان کے عدالتی نظام میں دہائیوں کی سرمایہ کاری

گزشتہ تین دہائیوں کے دوران بین الاقوامی مالیاتی اداروں، ڈونر ایجنسیوں اور مغربی ممالک نے پاکستان کے عدالتی نظام کی بہتری، شفافیت، اور انصاف کی فراہمی کو مؤثر بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ اہم اداروں میں عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB)، اقوام متحدہ کا ترقیاتی پروگرام (UNDP)، یورپی یونین (EU)، اور USAID شامل ہیں، جنہوں نے 50 کروڑ ڈالر سے ایک ارب ڈالر کے درمیان فنڈز فراہم کیے۔ان فنڈز کے تحت ‘پاکستان رول آف لاء پروجیکٹ’، ‘جسٹس سیکٹر ریفارم پروگرام’، ‘ایکسیس ٹو جسٹس پروگرام’، اور‘سپورٹ ٹو فیڈرل جیوشری پروجیکٹ’ جیسے منصوبے شروع کیے گئے

جن کا مقصد عدلیہ کی صلاحیت میں اضافہ، قانونی امداد میں بہتری، عدالتی ڈھانچے کی ترقی، اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینا تھا۔لیکن ان خطیر سرمایہ کاریوں کے باوجود، پاکستان کا عدالتی نظام اب بھی کیسز کے انبار، غیر مؤثر عدالتی عمل، اور بدترین کرپشن جیسے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ یہ ایک اہم سوال کو جنم دیتا ہے: کیا بین الاقوامی ایجنسیاں پاکستان کی عدلیہ کو جوابدہ ٹھہرانے اور یہ جانچنے کا حق نہیں رکھتیں کہ ان کی سرمایہ کاری کا کوئی فائدہ بھی ہوا یا نہیں؟ اگر کئی دہائیوں کی مالی اور تکنیکی مدد کے باوجود کوئی نمایاں بہتری نہیں آئی، تو کیا ان اداروں کو بدستور غیر مؤثر نظام کی فنڈنگ جاری رکھنی چاہیے؟ اگر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے، تو ان اداروں کے لیے شفافیت کا مطالبہ کرنا اور اپنے وسائل کے استعمال پر سوال اٹھانا بالکل جائز ہے۔

پاکستان کی شفافیت کے حوالے سے ذمہ داری

بین الاقوامی کثیرالملکی اداروں اور ڈونر ممالک کی طرف سے دی جانے والی وسیع مالی اور تکنیکی امداد کے پیش نظر، پاکستان نہ صرف اخلاقی بلکہ قانونی اور معاہداتی طور پر بھی پابند ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے گورننس اور “کرپشن ڈائگناسٹک پروگرام” کے تحت اپنے طرزِ حکمرانی، انسدادِ بدعنوانی کے اقدامات، اور متعلقہ اداروں کا شفاف آڈٹ فراہم کرے۔میں کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں آئی ایم ایف کی مداخلت کی حمایت نہیں کرتا، لیکن اس معاملے میں پاکستان کے حکمرانوں نے خود اپنے اعمال اور وعدوں کے ذریعے یہ طوق اپنی گردن میں ڈالا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی عدلیہ عالمی درجہ بندی میں نچلی سطح پر ہے، بدعنوانی قومی پہچان بن چکی ہے، اور معاشی کارکردگی مایوس کن ہے۔

حال ہی میں، آئی ایم ایف نے پاکستان کی متوقع جی ڈی پی شرح نمو کو 3.2 فیصد سے کم کر کے 3.0 فیصد کر دیا، جو معیشت کی بگڑتی ہوئی حالت کو ظاہر کرتا ہے۔اگر پاکستان کی قیادت اور اس کا نام نہاد “قوم پرست” دانشور طبقہ حقیقت میں آئی ایم ایف کو “NO” کہنے اور اس کی شرائط کو مسترد کرنے کی ہمت رکھتا ہے، تو عوام شاید ان کا ساتھ دیں۔ لیکن اگر یہ حوصلہ نہیں رکھتے، تو پھر آئی ایم ایف کی شرائط ماننی ہوں گی۔ ٹاک شو سے مسئلے حل نہیں ہوتے ہیں—کیونکہ پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر آئی ایم ایف نے نہیں، بلکہ خود اس کے حکمران طبقے نے مجبور کیا ہے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے