امریکی آئین میں غلامی کا نظام: 21ویں صدی میں بھی قائم ہے

476832441_10162737444990948_5817363679510782293_n.jpg

اگرچہ چین، بھارت، برازیل، اور روس جیسے کچھ ممالک میں جبری مشقت اور جدید غلامی اب بھی موجود ہے، وہاں یہ یا تو غیر قانونی ہے یا خفیہ طور پر چلائی جا رہی ہے۔ اس کے برعکس، امریکہ شاید واحد ترقی یافتہ ملک ہے جہاں غلامی آج بھی آئین کے تحت قانونی طور پر موجود ہے، جسے 13ویں ترمیم کی استثنائی شق (exceptional provision) مضبوط تحفظ فراہم کرتی ہے۔ 13ویں آئینی ترمیم کہتی ہے “امریکہ یا اس کے کسی بھی علاقے میں نہ تو غلامی اور نہ ہی جبری مشقت کی اجازت ہوگی، سوائے اس کے کہ یہ کسی جرم کی سزا ہو جس کے لیے متعلقہ فرد کو قانونی طور پر مجرم قرار دیا گیا ہو۔13ویں ترمیم 1865 میں امریکی خانہ جنگی کے بعد منظور ہوئی تھی، جس کا مقصد ملک میں غلامی کو ختم کرنا تھا۔ تاہم اس میں ایک استثنائی شق رکھی گئی تھی، جو قیدیوں سے جبری مشقت کی اجازت دیتی ہے۔ یہ استثنیٰ جنوبی ریاستوں میں غلاموں کی کمی کے باعث قیدیوں سے کام لینے کے لیے رکھا گیا، تاکہ ان کی معیشت متاثر نہ ہو۔

اس استثنائی شق کی وجہ سے امریکی جیلوں بیس لاکھ قیدیوں میں 800,000 سے زائد قیدی غلامانہ مزدور کے طور پر محض 0.12 ڈالر سے لے کر 1.15 ڈالر فی گھنٹہ یا بعض ریاستوں میں بلا معاوضہ کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے برعکس، آزاد مزدور کے لیے کم از کم اجرت 7.25 ڈالر فی گھنٹہ ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکی جیلوں میں مزدوری قیدیوں کی اصلاح کے بجائے اُن کے استحصال کا نظام ہے۔قیدیوں کی اس غلامانہ مشقت سے سالانہ 14 ارب ڈالر سے زائد منافع حاصل ہوتا ہے، جس سے حکومتی ادارے اور میکڈونلڈز، والمارٹ، وہول فوڈز، اور اے ٹی اینڈ ٹی جیسی بڑی کمپنیاں فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ نجی جیلیں اور سرکاری ادارے اس سے زبردست منافع کماتے ہیں، جبکہ قیدیوں کو بنیادی مزدوری حقوق، یونین سازی کا حق، یا کام سے انکار کی اجازت حاصل نہیں ہوتی۔

نسلی امتیاز: ایک نیا غلامی کا نظام

یہ نظام سب سے زیادہ سیاہ فام اور لاطینی امریکی کمیونٹی کو متاثر کرتا ہے، جس سے امریکی جیلوں کا سسٹم گہرے نسلی تعصب کو ظاہر ہوتا ہے۔ امریکہ میں سیاہ فام افراد کل آبادی کا صرف 13.6 فیصد ہیں، لیکن قیدیوں کی تعداد میں ان کا حصہ 38 فیصد ہے۔ اسی طرح لاطینی افراد، جو کل آبادی کا 18.9 فیصد ہیں، جیل کے قیدیوں میں ان کا تناسب 30 فیصد ہے۔ اس کے برعکس، سفید فام امریکی، جو کل آبادی کا 58.9 فیصد ہیں، قیدیوں میں ان کا تناسب صرف 27 فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ امریکی کریمنل جسٹس سسٹم میں نسلی بنیاد پر جانبداری اور تفریق کا گہرا اثر اور تعصب آج بھی موجود ہے۔جیل کے قیدیوں کو صنعتی مزدوری، زراعت اور حتیٰ کہ فائر فائٹنگ جیسے خطرناک کاموں پر مجبور کیا جاتا ہے، جہاں انہیں محض چند پیسوں میں بھرتی کیا جاتا ہے۔ کیلیفورنیا میں، قیدی محض $1 فی گھنٹہ پر جنگلات میں آگ بجھاتے ہیں، لیکن جب وہ رہا ہوتے ہیں تو انہیں مجرمانہ ریکارڈ کی وجہ سے پیشہ ور فائر فائٹر بننے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ یہ نظام قیدیوں کو محض ایک سستا مزدور بنا کر رکھنے کو یقینی بناتا ہے، جس سے نسلی اور اقتصادی استحصال کا ایک مستقل منہوس چکر چلتا رہتا ہے۔

تبدیلی کا مطالبہ

میں نے حال ہی میں سارینا مارٹن کا ایک انٹرویو سُنا جو کہ نیو یارک کی سابقہ قیدی، سماجی کارکن، اور ‘نیو آور فار ویمن اینڈ چلڈرن’ (New Hour for Women and Children) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے امریکہ کی آئینی غلامی کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ 13ویں ترمیم کی استثنائی شق امریکی حکام کو آج بھی غلامی کے نظام کو برقرار رکھنے کا اختیار دیتی ہے۔ وہ اس شق کے مکمل خاتمے اور غلامی کی ہر شکل کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہیں۔امریکہ، جو خود کو انسانی حقوق کا عالمی چیمپیئن سمجھتا ہے، آج بھی جدید ترین قانونی غلامی کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ استثنائی شق کا خاتمہ ناگزیر ہے، اور قیدیوں کو انسان سمجھا جانا چاہیے، نہ کہ سستا غلام مزدور (bonded labour)۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکہ نے دنیا کے کئی ممالک پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے نام پر اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں مگر اپنے ہاں غلامی کو آج بھی آئینی طور پر برقرار رکھا ہوا ہے۔
سارینا مارٹن نے یہ بھی بتایا کہ امریکی جیلوں میں قید خاتون اگر حاملہ ہو جائے اور اس کے ہاں بچہ پیدا ہو جائے، تو ماں کو اپنے بچے کو اپنے پاس رکھنے کا کوئی قانونی حق نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ سے نہ صرف ماں جسمانی اور جذباتی اذیت سے گزرتی ہے، بلکہ نومولود بچے کی صحت بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ وہ اس سلسلے میں نیو یارک میں نئی قانون سازی کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ قیدی ماں کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔آج امریکی غلامی کے نظام یا بندی مزدوروں کی آزادی کی تحریک کے لیے انڈیا کے نوبل انعام یافتہ کیلاش ستھیارتھی اور پاکستان کے احسان اللہ خان جیسے فعال ایکٹویسٹ کی ضرورت ہے جنھوں نے اپنے ملکوں میں غلام مزدور آزاد کروائے اور جبری مشقت کے خلاف جنگ لڑی۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی غلامی کی مختلف شکلیں موجود ہیں، لیکن انھیں ایسا آئینی تحفظ حاصل نہیں ہے جیسا کہ امریکہ میں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے