اسرائیلی فورسز کا غزہ کی مرکزی راہداری سے مکمل انخلا

71350090_1004.jpg

حماس کے حکام نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اتوار کو ‘نتساریم کوریڈور‘ سے اسرائیلی فورسز کے انخلا کی تصدیق کر دی ہے۔ ‘نتساریم کوریڈور‘ غزہ کی ایک اہم شاہراہ پر واقع ہے اور اس کی وجہ سے غزہ دو حصوں میں تقسیم تھا۔ اسرائیل نے یہاں بفرزون قائم کر رکھا تھا۔قبل ازیں اتوار کی صبح ایک اسرائیلی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ اسرائیلی افواج نے غزہ کی ایک اہم راہداری سے انخلا شروع کر دیا ہے اور ایسا حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کے تحت کیا جا رہا ہے۔

حماس کے زیرانتظام غزہ کی وزارت داخلہ کے اہلکار نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ”اسرائیلی فورسز نے اپنی پوزیشنیں اور فوجی چوکیاں ختم کر دی ہیں اور صلاح الدین روڈ پر نتساریم کوریڈور سے اپنے ٹینک مکمل طور پر ہٹا لیے ہیں، جس سے گاڑیوں کو دونوں سمتوں میں آزادانہ گزرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔غزہ میں موجود ایک صحافی نے بھی بتایا کہ اتوار کو وہاں کوئی اسرائیلی فوجی موجود نہیں تھا۔

اسرائیلی فوج کے اس انخلا کے بعد غزہ کے شمال میں رہنے والے اب جنوب کی طرف جانے والی راہداری کو بھی عبور کر سکتے ہیں۔ اکتوبر 2023 میں غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیلی فوج نے اس کوریڈور کو مضبوط بناتے ہوئے غزہ کے شمالی حصے کو مؤثر طریقے سے جنوب سے کاٹ دیا تھا۔اس اہم راہداری سے اسرائیلی فوجیوں کا مکمل انخلا حماس اور اسرائیل کے درمیان یرغمالیوں اور قیدیوں کے پانچویں تبادلے کے ایک دن بعد ہوا ہے۔ گزشتہ روز حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیلی جیلوں میں قید 183 فلسطینیوں کے بدلے مزید تین اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا تھا۔

او آئی سی کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ

ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ پٹی سے فلسطینیوں کو زبردستی بے گھر کرنے کے امریکی اور اسرائیلی منصوبے پر بات چیت کے لیے ایک ہنگامی اجلاس کا انعقاد کرے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق عباس عراقچی نے اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طحہ سے ایک فون کال میں کہا ہے کہ اب یہ اسلامی ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے جائز حقوق کا دفاع کریں۔ایرانی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا، ”غزہ سے فلسطینیوں کو زبردستی بے گھر کرنے کا منصوبہ نہ صرف ایک بڑا جرم بلکہ نسل کُشی کے مترادف ہے۔ اس کے علاقائی اور عالمی استحکام کے ساتھ ساتھ امن کے لیے بھی خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔‘‘

عرب ممالک کا ہنگامی سربراہی اجلاس

مصری وزارت خارجہ نے  میں کہا کہ مصر 27 فروری کو عرب ممالک کے ایک ہنگامی سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا، جس میں فلسطینی علاقوں سے متعلق ”تازہ ترین اور سنگین پیش رفت‘‘ پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔اس ”ہنگامی عرب سربراہی اجلاس‘‘ کا انعقاد ایک ایسے وقت پر کیا جا رہا ہے، جب مصر غزہ پٹی سے فلسطینیوں کو مصر اور اردن منتقل کرنے کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کے خلاف علاقائی حمایت حاصل کر رہا ہے۔اتوار کے روز جاری کیے گئے اس بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اجلاس ”مصر کی طرف سے حالیہ دنوں میں عرب ممالک کے ساتھ اعلیٰ ترین سطح پر وسیع مشاورت کے بعد بلایا گیا ہے، جس میں فلسطین بھی شامل ہے۔‘‘ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس میں بحرین کے ساتھ رابطہ کاری بھی شامل ہے، جس کے پاس اس وقت عرب لیگ کی سربراہی ہے۔

مصری وزیر خارجہ امریکہ روانہ

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کے باشندوں کو مصر اور اردن منتقل کرنے کا منصوبہ پیش کیے جانے کے بعد مصری وزیر خارجہ بدر محمد عبدالعاطی اتوار کو اعلیٰ امریکی حکام اور کانگریس کے اراکین سے ملاقات کے لیے واشنگٹن روانہ ہو گئے۔مصری وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق عبدالعاطی کے اس دورے کا مقصد ”مصر اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ تعلقات اور اسٹریٹیجک شراکت داری کو فروغ دینا‘‘ ہے جبکہ اس دوران ”علاقائی پیش رفت پر مشاورت‘‘ بھی کی جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے