حیدرآباد میں وکلا کا احتجاج شدت اختیار کر گیا، آخر معاملہ ہے کیا؟

4 روز قبل حیدرآباد میں بھٹائی نگر پولیس نے علی رضا ایڈووکیٹ کے خلاف جعلی نمبر پلیٹ لگانے کے الزام میں جعلسازی اور فراڈ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکےکار تحویل میں لےلی تھی جس کے خلاف وکلا برادری نے ایس ایس پی آفس پر دھرنا د ے دیا تھا جو نہ صرف اب تک جاری ہے بلکہ احتجاج میں شدت بھی آچکی ہے۔وکلا کا مطالبہ یہ تھا کہ بھٹائی نگر تھانےکے ایس ایچ او اور ایس ایس پی حیدرآباد فرخ لنجھار کو برطرف کرکے مقدمہ ختم کیا جائے لیکن مطالبات نہ ماننے پر اس معاملے میں شدت آتی جا رہی ہے۔علاوہ ازیں24 گھنٹوں سے زائد کا وقت گزرنے کے باوجود حیدرآباد بائی پاس پر پولیس کے خلاف وکلا کا دھرنا جاری ہے جس کے باعث کراچی سے ملک کے دیگر حصوں کو جانے والی قومی شاہراہ پر ٹریفک معطل ہے اور گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ چکی ہیں جس سے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔مظاہرین ایس ایس پی کے تبادلے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حیدرآباد بار ممبران سے اظہاریکجہتی، کراچی بار ایسوسی ایشن نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔
وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار نے وائس چیئرمین اور چیئرمین ایگزیکٹیو کمیٹی سندھ بار کونسل سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے اور معاملے پر غور اور حل کے لیے آئی جی سندھ سے ملاقات کا کہا ہے۔ضیاء الحسن لنجار نے معاملہ باہم گفت شنید و مشاورت سے طے کرنے کا بھی کہا ہے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ اگر جوڈیشل انکوائری مقصود ہے تو اس حوالے سے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں، ہائیکورٹ حیدرآباد کے جج کی زیر نگرانی جوڈیشل انکوائری کی جائے اور جوڈیشل انکوائری کمیٹی میں بار کا نمائندہ، سینیئر پولیس آفیسر کو شامل کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل انکوائری میں دونوں فریقین کے مابین فیصلہ سامنے آنے پر مرتکبین کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔وزیر داخلہ نے وکلا برادری سے التماس کیا کہ عوامی مفاد میں احتجاج ختم کریں اور قانون کو خود اپنا راستہ بنانے دیں۔
دریں اثنا صدر ہائیکورٹ بار کی قیادت میں درجنوں وکلا حیدآباد روانہ ہوچکے ہیں، صدر ہائیکورٹ بار بیرسٹرفرازمیتلو کا کہنا ہے کہ ہم حیدرآباد بارایسوسی ایشن سے اظہاریکجہتی کے لیے جارہے ہیں، وکلا کےساتھ کہیں بھی زیادتی ہوہم آواز بلند کریں گے۔انہوں نے مطالبہ کہ وکیل کےخلاف درج مقدمہ واپس اور زیادتی کرنےوالے پولیس افسرکےخلاف کارروائی کی جائے۔