یورپی یونین کو ’اپنا مفاد‘ مدنظر رکھنا چاہیے، فان ڈیئر لائن
یورپی یونین کے سفیروں سے خطاب میں فان ڈیر لائن نے کہا، ”یورپ کو دنیا کے ساتھ ویسے ہی پیش آنا چاہیے، جیسا وہ ہم سے پیش آتی ہے۔فان ڈیئر لائن کے بقول، ”اسے (یورپی یونین کو) ایک ایسی دنیا کے بارے میں جذباتی یا ایسی پرانی یادوں کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرنے چاہییں، جو کبھی تھی، بلکہ اس بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آج کی دنیا میں ہمارے اپنے مفاد میں کیا ہے۔27 ممالک پر مشتمل یورپی یونین امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے کیونکہ وہ واشنگٹن کے روایتی اتحادیوں کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں دکھائی دے رہے۔امریکی صدر نے اہم شراکت داروں کینیڈا اور میکسیکو پر محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا مگر پھر سخت سرحدی کنٹرول کے وعدوں کے بعد ان اقدامات کو معطل کر دیا۔
ٹرمپ متنبہ کر چکے ہیں کہ یورپی یونین ان کا اگلا ہدف ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے اس بلاک کے رکن ممالک سخت بات چیت کا راستہ اختیار کرنے پر تیار ہو سکتے ہیں۔فان ڈیئر لائن کا کہنا تھا، ”ہمیں رابطہ کاری کی ضرورت ہے۔ ہمیں طویل عرصے سے ہمارے شراکت داروں کے ساتھ بھی سخت مذاکرات کرنے پڑسکتے ہیں۔ اور ہمیں ان ممالک کے ساتھ بھی کام کرنا پڑ سکتا ہے جو ہمارے ہم خیال نہیں لیکن ہمارے کچھ مفادات مشترک ہیں۔‘‘یورپی کمیشن کی صدر نے بلاک کے سفیروں سے خطاب میں مزید کہا، ”اس نئی دنیا میں سفارتکاری کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہم اپنی نظریں اپنے مقصد پر رکھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے باہمی فائدے کے لیے شراکت داروں کے ساتھ مشترکہ وجوہات تلاش کرنا اور اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری رائے مختلف بھی ہو سکتی ہے۔‘‘
یورپی یونین کے رہنماؤں نے پیر تین فروری کو برسلز میں ملاقات کی اور ٹرمپ کو متنبہ کیا کہ وہ کسی بھی قسم کے محصولات عائد کیے جانے کی صورت میں جوابی کارروائی کرنے کے لیے تیار ہیں۔فان ڈیئر لائن نے اسی نکتہ نظر کی تائید کرتے ہوئے کہا، ”یورپ اپنی اقتصادی اور قومی سلامتی کا تحفظ کرے گا۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ہم صحیح توازن قائم کریں… ہم ایک ایسی عالمی دوڑ سے بچنا چاہتے ہیں جو کسی کے مفاد میں نہ ہو۔برسلز نے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات میں اضافہ کیا ہے، اور حال ہی میں جنوبی امریکی ممالک، میکسیکو اور سوئٹزرلینڈ کے ساتھ نئے تجارتی معاہدے کیے ہیں۔
فان ڈیئر لائن کے مطابق یہ کوشش جاری رہے گی، جس میں بھارت تک رسائی میں اضافہ اور جنوبی افریقہ کے ساتھ ایک سربراہ اجلاس بھی شامل ہے۔یورپی یونین کی سربراہ نے یہ بات زور دے کر کہی کہ روس کی جنگ کو تین سال ہونے کے باوجود یورپ کی اب بھی یہی ترجیح ہے کہ یوکرین کی حمایت کی جائے۔انہوں نے کہا کہ یورپی بلاک یہ دیکھنا شروع کرے گا کہ وہ روس کے منجمد اربوں ڈالر کے اثاثوں کو کس طرح استعمال میں لا سکتا ہے: ”ہمیں کریملن کو یہ دکھانا ہوگا کہ جنگ جتنی طویل ہوگی روس کے لیے قیمت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ یوکرین کو قوت کے ذریعے امن کی ضرورت ہے۔