غزہ کو ملکیت میں لینے کا بیان ٹرمپ کی لاعلمی اور الجھن کا مظہر: حماسی لیڈر
فلسطینی تنظیم حماس کے رہنما عزت الرشق نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ’غزہ کے کنٹرول‘ سے متعلق حالیہ بیانات کو ’الجھن‘ اور خطے کے بارے میں ان کی گہری ’لاعلمی‘ قرار دیا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو تجویز دی کہ غزہ سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو جنگ زدہ علاقے سے باہر مستقل طور پر آباد کیا جائے جبکہ امریکہ اس علاقے کی تعمیر نو کے لیے ’ملکیت‘ لے۔حماس کے اہم رہنما عزت الرشق نے واضح کیا کہ غزہ کوئی لاوارث زمین نہیں کہ کوئی بھی اس پر کنٹرول کا فیصلہ کرے۔انہوں نے کہا کہ یہ فلسطینیوں کی مقبوضہ سرزمین کا حصہ ہے، اور کسی بھی حل کی بنیاد ’اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی پر ہونی چاہیے، نہ کہ کسی رئیل اسٹیٹ کے تاجر کی ذہنیت یا طاقت کے ذریعے تسلط قائم کرنے کی سوچ پر۔حماس رہنما کے مطابق، ٹرمپ کے بیانات ایک بار پھر ثابت کرتے ہیں کہ امریکہ مکمل طور پر اسرائیلی قبضے اور فلسطینی عوام کے خلاف جارحیت کی کھلی حمایت کر رہا ہے۔
عزت الرشق نے مزید کہا کہ فلسطینی عوام اور ان کی متحرک قوتیں، عرب و اسلامی ممالک اور دنیا بھر میں آزادی کے حامیوں کی حمایت سے، جبری بے دخلی اور نقل مکانی کے تمام منصوبوں کو ناکام بنا دیں گے۔امریکی صدر کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ کے لوگ 15 ماہ سے زائد عرصے سے جاری اسرائیلی جارحیت کے بعد بحالی میں مدد کے لیے انسانی امداد کے منتظر ہیں۔امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے ساتھ بات چیت کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کیا، جہاں دونوں رہنماؤں نے اسرائیل اور حماس کے تنازعے میں حالیہ فائر بندی اور قیدیوں کے معاہدے پر تبادلہ خیال کیا۔
ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ غزہ کی پٹی کی ذمہ داری لے گا اور فلسطینیوں کو دوسری جگہ آباد کرنے کے بعد اس کی دوبارہ تعمیر کرے گا اور اس علاقے کو ’مشرق وسطیٰ کا ریویرا‘ میں تبدیل کر دے گا جس میں فلسطینیوں سمیت ’دنیا کے لوگ‘ رہیں گے۔ریویرا ایک ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے سمندر کا کنارہ لگتا ہے اور لوگ عموماً سیاحتی مقاصد کے لیے جاتے ہیں۔اب ٹرمپ تقریبا 18 لاکھ لوگوں کو وہ زمین چھوڑنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں جسے وہ لوگ اپنا گھر کہتے ہیں اور شاید امریکی فوجیوں کے ساتھ مل کر اس کا دعویٰ کرنا چاہتے ہیں۔ٹرمپ نے کہا: ’مجھے نہیں لگتا کہ لوگوں کو واپس جانا چاہیے۔ آپ اس وقت غزہ میں نہیں رہ سکتے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ایک اور جگہ کی ضرورت ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک ایسی جگہ ہونی چاہیے جو لوگوں کو خوش کرے۔‘
ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ غزہ کی پٹی کی ذمہ داری لے گا اور فلسطینیوں کو دوسری جگہ آباد کرنے کے بعد اس کی دوبارہ تعمیر کرے گا اور اس علاقے کو ’مشرق وسطیٰ کا ریویرا‘ میں تبدیل کر دے گا جس میں فلسطینیوں سمیت ’دنیا کے لوگ‘ رہیں گے۔ٹرمپ نے کہا، ’ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ یہ عالمی معیار کا ہو۔ یہ لوگوں کے لیے حیرت انگیز ہو گا- فلسطینی، زیادہ تر فلسطینی، جن کے بارے میں ہم بات کر رہے ہیں۔‘مشرق وسطیٰ میں مصر، اردن اور دیگر امریکی اتحادیوں نے ٹرمپ کو متنبہ کیا ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کی منتقلی سے مشرق وسطیٰ کے استحکام کو خطرہ لاحق ہو گا، تنازعے میں توسیع کا خطرہ ہے اور امریکہ اور اتحادیوں کی جانب سے دو ریاستی حل کے لیے دہائیوں سے جاری کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔اس کے باوجود ٹرمپ کا اصرار ہے کہ فلسطینیوں کے پاس غزہ کے ’ملبے کے بڑے ڈھیر کو چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
انہوں نے یہ بات اس وقت کہی جب ان کے اعلیٰ معاونین نے اس بات پر زور دیا کہ جنگ زدہ علاقے کی تعمیر نو کے لیے تین سے پانچ سال کی ٹائم لائن، جیسا کہ عارضی فائر بندی کے معاہدے میں طے کیا گیا ہے، قابل عمل نہیں ہے۔گذشتہ ہفتے مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اور اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے غزہ کے باشندوں کی آبادکاری کے ٹرمپ کے مطالبے کو مسترد کر دیا تھا لیکن ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ مصر اور اردن کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک جن کا انہوں نے نام نہیں لیا وہ بالآخر فلسطینیوں کو قبول کرنے پر راضی ہو جائیں گے۔ٹرمپ نے کہا کہ ’آپ دہائیوں پر نظر ڈالیں تو غزہ میں موت ہے۔ یہ برسوں سے ہو رہا ہے۔ سب موت ہے۔اگر ہم لوگوں کو مستقل طور پر، اچھے گھروں میں آباد کرنے کے لیے ایک خوبصورت علاقہ لے لیں جہاں وہ خوش رہ سکتے ہیں اور نہ انہیں گولیاں ماری جائیں اور نہ انہیں قتل کیا جائےاور نہ چاقو سے مارا جا سکے جیسا غزہ میں ہو رہا ہے۔‘
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ غزہ کی تعمیر نو میں مدد کے لیے امریکی فوجیوں کی تعیناتی سے انکار نہیں کر رہے ہیں۔ وہ اس علاقے کی تعمیر نو کے لیے ’طویل مدتی‘ امریکی ملکیت کا تصور کرتے ہیں۔کسی بھی سکیورٹی خلا کو پر کرنے کے لیے امریکی فوجیوں کی تعیناتی کے امکان کے بارے میں ٹرمپ نے کہا کہ ’ہم وہ کریں گے جو ضروری ہو گا۔سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، فلسطینی اتھارٹی اور عرب لیگ نے غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو ان کے علاقوں سے نکالنے کے منصوبوں کو مسترد کرنے میں مصر اور اردن کا ساتھ دیا۔
ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے سفیر سٹیو وٹکوف نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ میرے لیے فلسطینیوں کو یہ سمجھانا غیر منصفانہ ہے کہ وہ پانچ سال میں واپس آ سکتے ہیں۔ ’یہ بالکل مضحکہ خیز ہے ۔‘
ٹرمپ نے یہ اشارہ بھی دیا کہ وہ کئی دہائیوں سے جاری اسرائیل فلسطین تنازع کے وسیع تر دو ریاستی حل کے حصے کے طور پر ایک آزاد فلسطینی ریاست پر دوبارہ غور کر سکتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ 2020 میں پیش کیے گئے منصوبے پر قائم ہیں جس میں فلسطینی ریاست کا مطالبہ کیا گیا تھا تو انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’وقت کے ساتھ بہت سے منصوبے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ میرے جانے اور اب واپس آنے کے بعد سے بہت سی اموات ہو چکی ہیں۔‘
ٹرمپ کے دوسری بار صدر بننے کے بعد نتن یاہو امریکہ کا دورہ کرنے والے پہلے غیر ملکی رہنما ہیں اور یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب اسرائیلی وزیر اعظم کی عوامی حمایت میں کمی واقعہ ہو رہی ہے۔
وزیراعظم کے خلاف بدعنوانی کا مقدمہ چل رہا ہے۔ اس مقدمے ان الزامات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے کہ انہوں نے میڈیا کے تاجروں اور دولت مند ساتھیوں کو نوازا۔
انہوں نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ان پر ’سیاسی مقدمات‘ بنائے گئے ہیں۔
نتن یاہو نے قیدیوں کی بازیابی اور فائر بندی کے معاہدے پر ٹرمپ کی قیادت کی بھی تعریف کی۔ نتن یاہو نے ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے بارے میں کہا، ’میں آپ کو صرف یہ بتاؤں گا کہ مجھے خوشی ہے کہ آپ یہاں موجود ہیں۔‘
اسرائیلی رہنما نے کہا کہ وہ حماس کے ساتھ باضابطہ مذاکرات جاری رکھنے کے لیے ایک وفد قطر بھیجیں گے، جس میں خلیجی عرب ملک ثالثی کر رہے ہیں۔
یہ پہلی تصدیق ہے کہ یہ مذاکرات جاری رہیں گے۔ نتن یاہو نے یہ بھی کہا کہ جب وہ ہفتے کے آخر میں اسرائیل واپس آئیں گے تو وہ فائر بندی کے اگلے مرحلے کے لیے اسرائیل کے مطالبات پر بات کرنے کے لیے اپنی سکیورٹی کابینہ کا اجلاس کریں گے۔