برطانیہ کی مصنوعی ذہانت میں عالمی قیادت
برطانیہ پہلا ملک بن گیا ہے جس نے مصنوعی ذہانت سے تخلیق کردہ بچوں سے بدسلوکی کی تصاویر کو غیر قانونی قرار دینے کا اعلان کیا ہے۔لندن کی وکٹمز کمشنر کلیئر ویکس مین نے آن لائن اور گھریلو سطح پر اس خطرے کی شدت کو اجاگر کیا ہے۔حکومت نے اعلان کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے بچوں کے ریپ کی تصاویر بنانے والے ٹولز رکھنا اور تقسیم کرنا غیر قانونی قرار دیا جائے گا، جس سے برطانیہ ایسا قانون بنانے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔یہ ایک مثبت اور خوش آئند پیش رفت ہے۔ برطانیہ میں 12 سے 15 سال کی عمر کے 97 فیصد بچوں کے پاس سمارٹ فون ہے، جب کہ ایک اندازہ ہے کہ 16 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے پانچ فیصد لڑکے اور 15 فیصد لڑکیاں کسی نہ کسی شکل میں جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں۔ان جرائم کے مرتکب افراد کے لیے کسی بھی قسم کی رعایت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس استحصال کے باعث متاثرین کو زندگی بھر کے لیے ناقابل بیان اذیت ملتی ہے۔
اولڈہم، روٹرہیم، ٹیل فورڈ اور دیگر علاقوں میں گروہی سطح پر ہونے والے جنسی زیادتی کے متاثرین کی ہولناک کہانیاں سال کے آغاز سے ہی نمایاں رہی ہیں اور انہیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔تاہم حالیہ سیاسی اور میڈیا میں ان معاملات کو جس انداز میں اجاگر کیا جا رہا ہے، وہ بعض بدنیتی پر مبنی عناصر کی وجہ سے لگتا ہے، جیسے ایلون مسک، جنہوں نے پہلے کبھی جنسی زیادتی اور اس کے متاثرین میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
انہوں نے متاثرین کے زخموں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کے ذریعے پروپیگنڈا کیا، حالانکہ جب سے مسک نے اس پلیٹ فارم کو خریدا ہے اس وقت سے یہ پلیٹ فارم خود بچوں کے جنسی زیادتی کی رپورٹنگ سے متعلق سنگین الزامات کا سامنا کر چکا ہے۔
میں پروفیسر ایلکسس جے، جو انڈپینڈنٹ انکوائری ان ٹو چائلڈ سیکس ابیوز(آئی آئی سی ایس سے) کی سابق چیئرپرسن ہیں، کے ان تبصروں سے اتفاق کرتی ہوں جن میں انہوں نے ان مسائل کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر تنقید کی ہے۔خاص طور پر ان سیاست دانوں پر جو اچانک متاثرین کے لیے ہمدردی جتانے لگے ہیں، جبکہ وہی لوگ حکومت میں رہتے ہوئے متاثرین کے لیے کچھ نہیں کر سکے۔یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ آئی آئی سی ایس اے کی حتمی رپورٹ 2022 میں شائع ہوئی تھی، جس کی تیاری میں سات سال لگے، اس پر 18 کروڑ 60 لاکھ پاؤنڈ لاگت آئی، اور چھ ہزار سے زائد متاثرین کی گواہیاں جمع کی گئیں۔
سابق ہوم سیکریٹری، جو اب متاثرین کے لیے تشویش کا اظہار کرنے والوں میں سے ایک ہیں، اقتدار میں رہتے ہوئے اس کی کسی بھی سفارش پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہے۔یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ بچوں کی جنسی زیادتی کے متاثرین اور زندہ بچ جانے والوں کے لیے موجودہ بحث اور توجہ— چاہے بدنیتی پر ہی مبنی کیوں نہ ہو— عملی اقدامات کا سبب بنی ہے، اور حال ہی میں حکومت نے کئی مثبت اعلان کیے ہیں۔
خاص طور پر یہ اقدامات بچوں کی جنسی زیادتی کی تمام صورتوں کے متاثرین کے لیے معاون ثابت ہوں گے، جن میں بند کیے گئے کیسز کو دوبارہ کھولنے کا اقدام بھی شامل ہے، جو پرانے متاثرین کے لیے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔میں اب بھی اس بات پر فکر مند ہوں کہ بچوں کی جنسی زیادتی کی اصل نوعیت، پیچیدگی اور شدت حالیہ مباحثے میں نظر انداز ہو رہی ہے۔جہاں گروہی سطح پر ہونے والے استحصال کو بہتر طور پر سمجھنے اور روکنے کے اقدامات قابل تحسین ہیں، وہیں پولیس ریکارڈ ظاہر کرتے ہیں کہ اس نوعیت کے جرائم مجموعی کیسز کا صرف پانچ فیصد ہیں۔زیادہ تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ بچوں کی جنسی زیادتی کی سب سے بڑی وجہ خاندان کے افراد ہوتے ہیں، لیکن یہ مسئلہ حالیہ گفتگو میں نظر انداز کر دیا گیا۔آئی آئی سی ایس کی رپورٹ کے مطابق چھ ہزار متاثرین میں سے تقریباً نصف نے بیان دیا کہ ان کا استحصال کسی قریبی رشتہ دار نے کیا۔
اگر حکومت واقعی بچوں کی جنسی زیادتی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہے تو اسے متاثرین کے تحفظ کے لیے مزید مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے۔خاص طور پر گھریلو سطح پر، جہاں مقدمات کم درج ہوتے ہیں اور بچوں کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جاتے۔مجھے خاص طور پر ہمارے قانونی نظام میں موجود خامیوں پر تشویش ہے جو خاندانی سطح پر بچوں کے استحصال کو جاری رکھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔موجودہ قانون کے مطابق کسی بھی سنگین جنسی جرم میں سزا یافتہ شخص کا نام خود بخود جنسی مجرموں کے رجسٹر میں شامل کر دیا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود ایسے مجرم اپنے بچوں تک رسائی کے قانونی حق کو استعمال کر سکتے ہیں۔گذشتہ سال میں نے بیرونس چکرابرتی کے ساتھ مل کر ایک قانونی ترمیم پر کام کیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ اگر کوئی فرد کسی سنگین جنسی جرم میں سزا یافتہ ہو تو اس کی والدین کی ذمہ داری کو معطل کر دیا جائے۔
بیرونس ہیرمن نے اس سے بھی آگے بڑھ کر تجویز دی کہ ہر ایسے فرد پر پابندی عائد ہونی چاہیے جو کسی بھی جنسی جرم میں سزا یافتہ ہو۔مجھے خوشی ہے کہ حکومت نے کنگز سپیچ میں اس مسئلے کو حل کرنے کا عندیہ دیا، اور میں مطالبہ کرتی ہوں کہ اس پر فوری طور پر عمل کیا جائے۔اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو ہم مزید ایسے واقعات دیکھتے رہیں گے جن میں سنگین جنسی جرائم میں ملوث افراد کو بچوں تک رسائی دی جاتی رہے گی، جب کہ حفاظتی اقدامات کرنے والی مائیں عدالتوں میں بھاری اخراجات اٹھانے پر مجبور ہوں گی تاکہ وہ اپنے بچوں کو ان مجرموں سے محفوظ رکھ سکیں۔ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ جو بچے جنسی زیادتی کی شکایت کریں، انہیں یقینی مدد دی جائے۔لندن میں قائم ’لائٹ ہاؤس‘ اس وقت انگلینڈ میں واحد ادارہ ہے جو جنسی بدسلوکی کے شکار متاثرین کو ایک ہی چھت تلے مختلف نوعیت کی معاونت فراہم کرتا ہے اور انہیں فوجداری انصاف کے عمل میں مکمل مدد فراہم کرتا ہے۔اگر ہم واقعی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی روکنا چاہتے ہیں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس نوعیت کے معاون مراکز پورے ملک میں قائم کرنے ہوں گے۔