اسرائیل کی طاقت کو چار بڑے دھچکے

f.jpg

 

 

 

 

 

اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اور غزہ میں اسلامی مزاحمت کے درمیان جنگ بندی ہو چکی ہے لیکن گذشتہ پندرہ ماہ تک جاری رہنے والی اس جنگ نے اسرائیل کی طاقت کو شدید دھچکہ پہنچایا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات عامہ پر حکمفرما حقیقت پسندانہ طرز فکر کی روشنی میں غزہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کا تجزیہ ایسے انداز میں کیا جا سکتا ہے جس سے اسرائیل کی طاقت پر ان کاری ضربوں کی پہچان ممکن ہو سکے جس کا باعث یہ جنگ بنی ہے۔ تحریر حاضر میں ہماری کوشش ہو گی کہ طاقت پر مبنی تعلقات کے ماڈل، طاقت، طاقت کا توازن، طاقت کا افسانہ اور دونوں فریقین کے درمیان تعلقات کی بنیاد پر دونوں کی صورتحال واضح کر سکیں۔

1)۔ طاقت کو منظم کرنا

طاقت کے توازن میں دو عناصر "استحکام” اور "طاقت” بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ استحکام، طاقت کے حصول کا مرکز و محور ہوتا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کے دن طوفان الاقصی آپریشن انجام پانے کے بعد غاصب صیہونی حکمرانوں یہ تصور کر رہے تھے کہ مقبوضہ علاقوں میں طاقت ان کی مرضی کے مطابق منظم کی جائے گی لہذا جب وسیع بمباری کے بعد غزہ کے شمال سے بڑی تعداد میں فلسطینیوں نے رفح کی جانب نقل مکانی کی تو صیہونی فوج نے غزہ کو چند حصوں میں بانٹ دیا اور اپنی چار ڈویژنز غزہ بھیج دیں۔

 

اسرائیل تصور کر رہا تھا کہ وہ فوج بھیج کر اسرائیل کے اردگرد اسلامی مزاحمت کی طاقت مکمل طور پر ختم کر سکتا ہے لیکن وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے اور ہوائی حملوں کے بعد زمینی حملے بھی انجام دینے کے باوجود اسرائیلی فوج غزہ میں مستقل طور پر اپنی موجودگی برقرار رکھنے میں ناکامی کا شکار ہوئی جبکہ وہ فوجی آپریشن کے ذریعے غزہ سے اپنے یرغمالیوں کو بھی آزاد نہ کروا سکی اور آخرکار اسلامی مزاحمت سے جنگ بندی معاہدہ طے کرنے پر مجبور ہو گئی۔ یہ سب کچھ ایسے وقت ہوا جب صیہونی فوج کا ایک اہم مقصد غزہ کی پٹی میں مستقل فوجی ٹھکانے قائم کرنا تھا تاکہ اس طرح اس علاقے میں اپنی ہمیشگی موجودگی یقینی بنا سکے۔ صیہونی اخبار یدیعوت آحارنوت نے 11 نومبر 2024ء کی اشاعت میں لکھا: "مستقل فوجی مراکز، جیلوں اور ہیڈکوارٹرز کی تعمیر کے بعد نیتساریم بفر زون اسرائیل کے مستقل فوجی ٹھکانے میں تبدیل ہو جائے گا۔” اسرائیل کے سیکورٹی حلقوں میں بھی اس بات پر زور دیا گیا کہ اسرائیل غزہ میں مستقل فوجی موجودگی کے بغیر وہاں کے مستقل خطرات پر قابو نہیں پا سکتا۔ انٹیلی جنس شعبے میں مسلسل ناکامیوں کے بعد اسرائیل نے غزہ کو تین حصوں میں تقسیم کر دینے کی کوشش کی۔ انتہاپسند اسرائیلی رہنماوں کا دعوی تھا کہ اسرائیلی فوج ایک ایسا نیا بفر زون قائم کرے گی جو غزہ کے شمالی حصوں کو جنوبی حصوں سے مکمل طور پر علیحدہ کر دیں گے اور اس مقصد کے لیے غزہ کے جنوبی حصے میں بھی ایک بفر زون بنایا جائے گا۔

 

2)۔ طاقت کے ذریعے حیثیت پیدا کرنا

ایک حکومت علاقائی سطح پر طاقت کا توازن برقرار کرنے کے لیے طاقت پیدا کرنے کے مختلف ذرائع بروئے کار لاتی ہے۔ انہی ذرائع کی ایک قسم دفاعی اور سیکورٹی حربے ہیں جنہیں ایک حکومت مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے استعمال کرتی ہے۔ مثال کے طور پر طاقت کا مظاہرہ اور حیثیت پیدا کرنا بھی ایسے ذرائع ہیں جن کی مدد سے علاقائی طاقت کا توازن برقرار کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات عامہ میں حقیقت پسندانہ طرز فکر کی روشنی میں طاقت کا توازن برقرار کرنے کی بنیادی شرط زوال یافتہ حیثیت کو دوبارہ بحال کرنا ہے۔ طاقت ایسی ہونی چاہیے جو خود کو بحال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ 7 اکتوبر 2023ء کے دن طوفان الاقصی آپریشن کے بعد اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو انٹیلی جنس شعبے میں شدید دھچکہ پہنچا تھا جس نے اسرائیل کی طاقت کی بحالی کی صلاحیت کو بھی شدید متاثر کیا تھا۔ ہوائی حملوں میں اسرائیل کی کامیابی سے ہٹ کر دیکھا جائے تو اسے زمینی حملے میں کوئی اہم کامیابی حاصل نہیں ہو سکی اور وہ فوجی آپریشن کے ذریعے اپنی رفتہ اور زوال یافتہ طاقت اور حیثیت بحال کرنے میں ناکام رہا ہے۔

 

3)۔ طاقت کے اہداف میں شکست

ایک حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ جنگ اور بحرانی حالات میں اپنی فوج کے لیے ایسے اہداف کا تعین کرنے جو قابل حصول ہوں اور اس کی فوج میدان جنگ میں انہیں حاصل کر سکتی ہو۔ قابل حصول اہداف کا تعین میدان جنگ میں مسلح افواج کے حوصلے بلند ہونے کا باعث بنتے ہیں اور انہیں مزید مشکل اہداف حاصل کرنے کے لیے پرامید بنا دیتے ہیں۔ صیہونی رژیم نے طوفان الاقصی آپریشن کے بعد غزہ پر فوجی جارحیت کے پہلے دن ہی ایسے اہداف کا اعلان کیا جو میدان جنگ میں اس کی فوج کے لیے قابل حصول نہیں تھے۔ اسرائیل کی جانب سے خطے میں طاقت کا توازن 7 اکتوبر سے پہلے والی حالت میں واپس لوٹانے میں ناکامی کا واضح ثبوت یہ ہے کہ وہ غزہ جنگ میں اعلان کردہ اہداف حاصل نہیں کر پایا۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے بقول یہ اہداف حماس کی مکمل نابودی، اسلامی مزاحمت کا خاتمہ اور اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی پر مشتمل تھے۔ یہ شکست درحقیقت اسرائیل کی فوجی طاقت کی شکست جانی جاتی ہیں۔ تازہ ترین انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق غزہ میں حماس نے گذشتہ چند ماہ کے دوران 20 ہزار نئے مجاہدین بھرتی کیے ہیں لہذا اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں حماس نہ صرف ختم نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر سامنے آئی ہے۔

 

4)۔ طاقت کے افسانے کا خاتمہ

فوجی شعبے میں ایک تصور پایا جاتا ہے جسے طاقت کا افسانہ قائم کرنا کہتے ہیں۔ افسانہ قائم کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ممالک جہاں تک ممکن ہو دوسروں کو اپنی "افسانوی” اور "پراسرار” طاقت سے خوفزدہ کرتے ہیں تاکہ وہ ان کے خلاف جارحانہ یا توسیع پسندانہ عزائم ترک کر دیں۔ یہ صورتحال ایک ذہنی حالت ایجاد کرتی ہے جس کی روشنی میں ایک ملک اپنی طاقت کا فقط کچھ حصہ بروئے کار لا کر طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے اور دوسروں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ذہنی طاقت سے مراد طاقت کی وہ سطح ہے جسے حریف یا دشمن طاقتیں درک کرتی ہیں۔ اس قسم کی طاقت کا حقیقی ہونا ضروری نہیں ہوتا بلکہ صرف مدمقابل کے ذہن میں طاقت کا ایک افسانہ ایجاد کرنا کافی ہوتا ہے۔ اسے افسانوی طاقت بھی کہا جاتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات عامہ کے میدان میں مختلف حکومتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس نفسیاتی ہتھکنڈے سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ نفسیاتی ہتھکنڈہ کم ترین اخراجات کا حامل ہوتا ہے۔ غزہ جنگ سے پہلے اسرائیل ایک افسانوی طاقت کا حامل تھا لیکن جنگ میں شکست کے بعد اس کی افسانوی طاقت زوال پذیر ہو گئی۔ غزہ جنگ نے اسرائیل کی اس طاقت کو جو "قابل تصور” تھی ایسی طاقت تک گرا دیا جو "حقیقت میں ظاہر ہوئی”۔ یہ اسرائیل کو حاصل ہونے والی اہم ترین شکست جانی جاتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے