سیاسی کشیدگی سے عسکریت پسندوں کو فائدہ

زنیرہ-خان.jpg

2024 میں پاکستان نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں سب سے پرتشدد سال کا سامنا کیا۔ سیاسی انتشار، بلوچ علیحدگی پسندوں اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اہم چیلنجز رہے۔پاکستان کا پرتشدد منظرنامہ صرف سیاسی عدم استحکام تک محدود نہیں ہے۔ ACLED کانفلکٹ انڈیکس کے مطابق، 2024 میں پاکستان دنیا کا 12واں شدید تنازعات والا ملک رہا اور اس کی آبادی کا پانچواں حصہ تشدد کے خطرے سے دوچار ہے۔تقریباً 85 فیصد تشدد بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے سرحدی علاقوں میں مرکوز رہا، جو بالترتیب بلوچ علیحدگی پسندوں اور ٹی ٹی پی کے مضبوط گڑھ ہیں۔

بلوچ علیحدگی پسند، حکومت پاکستان پر قدرتی وسائل کے استحصال کا الزام عائد کرتے ہیں اور اسی وجہ سے علیحدگی پسندوں نے 2024 میں حکومت کے خلاف اپنی جاری شورش کو تیز کیا۔ گذشتہ سال کے دوران تشدد کی بلند ترین سطح برقرار رہی، جو علیحدگی پسندوں کی مسلح اور تنظیمی طاقت میں اضافے کی عکاسی کرتی ہے۔پچھلے سال چینی باشندوں پر حملوں میں بھی اضافہ ہوا۔ ٹی ٹی پی کی جاری سرگرمیوں، داعش خراسان اور حافظ گل بہادر گروپ کے حملوں کے نتیجے میں خیبرپختونخوا میں سیاسی تشدد 2024 کے دوران مسلسل بلند سطح پر رہا۔

یہ تنظیمیں پاکستان میں قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہیں اور فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے کے لیے دہشت گردی کا سہارا لے رہی ہیں۔سیاسی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کے امتزاج نے ایک غیر مستحکم ماحول پیدا کیا ہے جس کے خطے پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جیسے جیسے عسکریت پسند گروپ مضبوط ہوتے جا رہے ہیں، تشدد بڑھ رہا ہے جس کے نتیجے میں طالبان اور پاکستانی فورسز کے درمیان سرحدی جھڑپوں میں تین گنا اضافہ دیکھا گیا اور پاک افغان تعلقات مزید کشیدہ ہوئے۔

2025 میں کیا ہو گا؟

ملک کے اندر کشیدہ سیاسی صورت حال عسکریت پسندوں کو مزید مواقع فراہم کر رہی ہے، جس سے وہ مقامی عوام کے غصے کا اپنے مقاصد کے حصول کے لیے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر حکومت کا عسکریت پسندوں کے خلاف سیاسی مکالمہ کرنا یا ان کے خلاف متحدہ اقدام اٹھانا مزید مشکل ہو رہا ہے۔بلوچستان کی آبادی بیلٹ باکس یا پرامن احتجاج کے ذریعے تبدیلی لانے میں ناکام رہی ہے، جو کہ عسکریت پسندوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا۔ریاست نے بلوچ علیحدگی پسندی کے مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے میں زیادہ دلچسپی ظاہر نہیں کی اور پرامن کارکنوں کو بھی عسکریت پسندوں کے ساتھ ایک ہی ترازو میں تولا ہے۔

صوبے میں ایک ’جامع فوجی آپریشن‘ کے آغاز کا فیصلہ اس بات کی جانب اشارہ دیتا ہے کہ علیحدگی پسندوں سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت نے جارحانہ طریقہ اپنانے کا انتخاب کیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاستی اداروں کے ذریعے انسانی حقوق کی خلاف ورزی تنازعات کو ہوا دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ایسے ماحول میں ایک حد سے زیادہ عسکریت پسندانہ ردعمل صرف علیحدگی پسندوں کو مضبوط کرے گا۔ یہ ان کے بیانیے کو تقویت دینے کے ساتھ ساتھ بھرتیوں کو بھی فروغ دے گا۔ چین کے اصرار پر غیر ملکی سکیورٹی عملے کی تعیناتی بلوچستان میں انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

کیا حکومت کبھی بلوچ آبادی کے مسائل اور تشویش کو ترجیح دے گی ؟

یا پاکستان ایک اور مشرقی بنگال کا سامنا کرے گا ؟

خیبرپختونخوا میں عسکریت پسندی سے نمٹنا مزید مشکل ہے، جہاں پی ٹی آئی کی قیادت میں صوبائی حکومت کے وفاقی حکومت کے ساتھ سیاسی اختلافات متحدہ حکمت عملی کی کوششوں میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔سکیورٹی فورسز کو مقامی آبادی کے عدم تعاون کے ساتھ ساتھ اپنے عملے میں بھی چیلنجز کا سامنا ہے، جو انتہا پسندی کے خلاف کارروائیوں کے لیے سٹریٹجک کامیابی کے امکانات کو مزید کمزور کرتا ہے۔2025 میں عسکریت پسندی کے بڑھنے کے ساتھ ڈرونز اور فضائی حملوں کے غیر واضح استعمال میں اضافہ ہو سکتا ہے۔یہ نہ صرف شہری اموات میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے بلکہ پرتشدد ردعمل کو بھی جنم دے سکتا ہے۔

ٹی ٹی پی نے کئی اضلاع میں اپنی موجودگی مضبوط کر لی ہے، جس میں بڑی شاہراہوں پر گشت کرنا اور متوازی مقامی عدالتیں قائم کرنا شامل ہے، اور رواں سال خیبرپختونخوا میں مزید فوائد حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔عوامی بیانات، جیسے پشتون قومی جرگے کے دوران عارضی جنگ بندی کا اعلان اور صرف سکیورٹی اہلکاروں کو ہدف بنانا، مقامی حمایت حاصل کرنے اور اپنی موجودگی کو مستحکم کرنے کی کوششیں ہیں۔اسی دوران، ٹی ٹی پی، جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی کے درمیان قریبی تعلقات ٹی ٹی پی کو پنجاب میں پھیلنے کی اجازت دے سکتے ہیں، جہاں جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی کے مضبوط نیٹ ورک موجود ہیں۔پنجاب میں عسکریت پسندی میں اضافہ ملک بھر میں سلامتی کی صورت حال کو ایک قومی مسئلہ بنا سکتا ہے۔

داعش خراسان نے بھی پاکستان پر نظریں جما رکھی ہیں اور حال ہی میں پشتو اور اردو زبان میں پروپیگنڈا بڑھایا ہے، جو تحریک طالبان پاکستان کے مذہبی نظریات کے برعکس ہے۔اگر آئی ایس کے پی اور ٹی ٹی پی کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے تو علاقائی سلامتی مزید غیر مستحکم ہو سکتی ہے اور دونوں گروہوں کے درمیان علاقائی جھڑپوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔حافظ گل بہادر گروپ، جس نے اب تک ٹی ٹی پی کی اتحاد کی پیشکش کو مسترد کیا ہے، ایک مضبوط حریف کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ ماضی میں، پاکستان نے عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے عسکری گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی حکمت عملی اپنائی تھی۔افغانستان کے حالیہ بیانات، جن میں پاکستان پر داعش خراسان کے تربیتی کیمپوں کو نظرانداز کرنے کا الزام لگایا گیا ہے، اس حکمت عملی کے دوبارہ استعمال کے امکان کی نشاندہی کرتے ہیں، جو خطے کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

داعش خراسان حال ہی میں کرم ضلع میں فرقہ وارانہ فسادات کے ابھرنے سے کافی فائدہ اٹھا چکی ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ وہ دوسرے فرقے کی آبادیوں پر حملے کر کے ضلع میں فرقہ واریت کو مزید ہوا دے سکتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ مختلف عسکری گروہوں، جن میں ٹی ٹی پی شامل ہے، کے دوبارہ فعال ہونے کے ساتھ، داعش خراسان ممکنہ طور پر اس علاقے میں اپنی سرگرمیاں مزید تیز کرے گی۔اگر حکومت خودمختار قبائلی ضلع میں تنازعات کے حل کے لیے اقدامات کرنے میں ناکام رہتی ہے، تو اس سال پاکستان میں فرقہ وارانہ تنازعات میں نمایاں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔

ان چیلنجوں کی بین الاقوامی نوعیت پاکستان کو وسیع تر علاقائی تنازعات تک پہنچا سکتی ہے۔بلوچ علیحدگی پسندی ایران کے ساتھ کشیدگی کا سبب بن سکتی ہے، کیونکہ علیحدگی پسند سرگرمیوں میں اضافہ پاکستان پر دباؤ ڈال سکتا ہے کہ وہ بلوچ مسلح گروہوں کے خلاف کارروائی کرے، جن میں سے بہت سوں کا تعلق ایران سے ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ رواں سال بھی حکومت سیاسی مسائل پر زیادہ توجہ دے گی اور سکیورٹی خطرات کو نظرانداز کرے گی، یا پھر بیرونی دباؤ کے پیش نظر ٹھوس اقدامات اٹھانے پر غور کرے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے