طاقت، مزاحمت اور ناکامی کا معرکہ

pic-38621-1736767534.jpeg

پندرہ ماہ پر محیط اسرائیل اور حماس کی جنگ صرف دو فریقین کے درمیان تصادم نہیں تھی بلکہ یہ ایک طاقتور ریاست اور ایک غیر ریاستی مزاحمتی تنظیم کے درمیان غیر متوازن جنگ تھی۔ اسرائیل کی جانب سے شروع کی گئی اس جنگ کا مقصد حماس کی عسکری صلاحیتوں کو ختم کرنا، یرغمالیوں کو بازیاب کرانا اور غزہ کے خطے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ اس جنگ میں اسرائیل نے اپنی پوری عسکری قوت، جدید ٹیکنالوجی، اور مغربی حمایت کو استعمال کیا، لیکن نتائج نے واضح کر دیا کہ روایتی طاقت، غیر روایتی جنگ کے پیچیدہ حقائق کے سامنے بے بس ہے۔ اس طویل جنگ میں حماس نے اپنی تنظیمی، عسکری، اور سیاسی حکمت عملی کے ذریعے اپنی بقا کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اپنی حیثیت کو مزید مستحکم بھی کیا۔

جنگ کے آغاز میں اسرائیل نے ایک بڑے پیمانے پر جارحیت کا مظاہرہ کیا۔ فضائی حملے، میزائل باری اور زمینی آپریشنز کے ذریعے غزہ کو تقریباً ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ اسرائیل کا دعویٰ تھا کہ وہ حماس کی تمام عسکری صلاحیتوں کو ختم کر دے گا اور یرغمالیوں کو آزاد کرائے گا۔ امریکہ اور یورپ کی مکمل حمایت کے باوجود، اسرائیل اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔ حماس نے نہایت منظم حکمت عملی کے ساتھ جنگ کو طول دیا اور اپنی سرنگوں کے جال اور شہری جنگ کی حکمت عملی کے ذریعے اسرائیلی فوج کو ناکام کر دیا۔ اسرائیل کے دعوے کے باوجود، حماس کی قیادت، جنگجوؤں اور تنظیمی ڈھانچے کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ حماس کی سب سے بڑی کامیابی اس کی تنظیمی بقا تھی۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اس نے 17,000 حماس جنگجوؤں کو شہید کیا، گو کہ حماس کے اہم رہنمائوں نے شہادت کا رتبہ پایا لیکن دنیا بھر میں نشر ہونے والے مناظر اس امر کی گواہی ہیں کہ قیمتی جانوں کے نقصانات کے باوجود حماس نے اپنی افرادی قوت کو نئے جنگجو بھرتی کر کے بحال رکھا۔

اس تنظیم کی جلاوطن قیادت بھی محفوظ رہی اور اس نے جنگ کے دوران اہم فیصلے کیے۔ حماس کی سرنگوں کا نیٹ ورک اسرائیل کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوا۔ اسرائیل نے کئی سرنگوں کو تباہ کیا، لیکن اس کے باوجود حماس نے ان سرنگوں کے ذریعے اپنی کمانڈ، رسد، اور حملوں کا سلسلہ جاری رکھااور اسرائیل تمام تر قوت کے باوجود حماس کا نیٹ ورک ختم میں ناکام رہا بلکہ امریکہ کی جدید ترین ٹیکنالوجی بھی نیٹ ورک کا کامل سراغ نہ لگا سکی۔ یہ نیٹ ورک درحقیقت دور جدید کا ایک عجوبہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ جنگ کا سب سے متنازع پہلو یرغمالیوں کا مسئلہ تھا۔ اسرائیل نے یرغمالیوں کو آزاد کرانے کے لیے کئی عسکری آپریشن کیے، لیکن ان میں سے اکثر ناکام رہے۔ جون 2024 میں اسرائیل نے ایک بڑا آپریشن کیا، جس میں چار یرغمالیوں کو آزاد کرایا گیا، لیکن اس کے نتیجے میں کئی معصوم شہری ہلاک ہو گئے۔ یہ آپریشن اسرائیل کے لیے ایک بڑی اخلاقی اور عسکری ناکامی ثابت ہوا۔ حماس نے اسرائیل پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے کے لیے یرغمالیوں کو اپنی حکمت عملی کا حصہ بنایا اور مذاکرات کے ذریعے اپنی شرائط منوائیں۔

یہ اسرائیل کے لیے ایک بڑی سفارتی شکست تھی کیونکہ اسے عسکری طور پر ناکامی کے بعد حماس کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنا پڑا۔گو کہ اسرائیلی حکام اب بھی دھمکیاں دینے سے باز نہیں آرہے اور ان کے عزائم بھی عیاں ہیں کہ وہ حماس کے خلاف ایک بار پھر بڑی کاروائی کی تیاریوں میں ہیں اور صرف یرغمالیوں کو رہا کرانے کے لئے رکے ہوئے ہیں لیکن ان کی شکست روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے کہ وہ دراصل شکست خوردہ ہیں۔ حماس نے جنگ بندی کے معاہدے میں اپنی شرائط منوا کر سیاسی محاذ پر بھی کامیابی حاصل کی۔ اسرائیل نے غزہ کو تباہ کر کے یہ سمجھا کہ وہ حماس کو کمزور کر دے گا، لیکن جنگ کے بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ حماس نہ صرف مضبوط رہی بلکہ اپنی سیاسی حیثیت کو بھی مزید مستحکم کرنے میں کامیاب رہی۔ جنگ بندی کی شرائط میں حماس کی شرائط کا شامل ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سیاسی میدان میں بھی اسرائیل کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔

اسرائیل کی ناکامی کی کئی وجوہ ہیں۔ سب سے اہم وجہ شہری جنگ کی پیچیدگیاں ہیں۔ غزہ جیسے گنجان آباد علاقے میں جنگ لڑنا اسرائیل کے لیے انتہائی مشکل تھا۔ شہری علاقوں میں چھپے حماس کے جنگجوؤں کو نشانہ بنانا نہایت پیچیدہ اور خطرناک ثابت ہوا۔ دوسری بڑی وجہ اسرائیل کی جدید ٹیکنالوجی کی ناکامی تھی۔ ڈرونز، آئرن ڈوم اور دیگر جدید آلات شہری جنگ کے حالات میں مؤثر ثابت نہ ہو سکے۔ اسرائیل کی عسکری برتری اس وقت غیر مؤثر ہو گئی جب حماس نے غیر روایتی حکمت عملی کا سہارا لیا۔ تیسری وجہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں۔ غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی اور معصوم شہریوں کی ہلاکتوں نے عالمی سطح پر اسرائیل کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جس سے اس کی سفارتی پوزیشن کمزور ہو گئی۔حماس کی کامیابی صرف عسکری نہیں بلکہ نفسیاتی اور سیاسی بھی تھی۔ اس نے نہ صرف اسرائیل کی حکمت عملی کو ناکام بنایا بلکہ اپنی مزاحمت کی صلاحیت کو دنیا کے سامنے ظاہر کیا۔

حماس نے دکھا دیا کہ طاقت کا توازن ہمیشہ ہتھیاروں کی تعداد سے نہیں ہوتا بلکہ حکمت عملی اور عزم سے ہوتا ہے۔ حماس کی یرغمالیوں کو آزاد کرانے کے لیے مذاکرات کی کامیابی نے اسرائیل کو ایک ایسی پوزیشن میں لا کھڑا کیا جہاں اسے اپنی شکست تسلیم کرنی پڑی۔ جنگ کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ روایتی جنگی طاقت غیر روایتی جنگی حکمت عملی کے سامنے مؤثر نہیں ہو سکتی۔ اسرائیل نے اپنی پوری عسکری قوت کے ساتھ غزہ پر حملہ کیا، لیکن حماس نے اپنی مزاحمت، حکمت عملی، اور تنظیمی طاقت کے ذریعے نہ صرف اپنی بقا کو یقینی بنایا بلکہ اسرائیل کو سیاسی اور عسکری میدان میں شکست دی۔ یہ تنازع عالمی برادری کے لیے ایک سبق ہے کہ جنگ صرف تباہی لاتی ہے اور مسائل کا حل مذاکرات اور امن میں پوشیدہ ہے۔ یہ جنگ مشرق وسطیٰ کی سیاست کا رخ بدلنے والی ایک بڑی تبدیلی کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ اس تنازع نے ثابت کر دیا کہ طاقتور ہونا کافی نہیں، حکمت عملی اور عزم وہ عناصر ہیں جو تاریخ کا رخ بدل سکتے ہیں۔ حماس نے دنیا کو دکھا دیا کہ کمزور سمجھے جانے والے بھی طاقتور کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں، اور اسرائیل نے اپنی تمام تر عسکری برتری کے باوجود ایک ایسی جنگ میں شکست کھائی جو اس نے جیتنے کا دعویٰ کیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے