نیا قانون پیکا ترمیمی ایکٹ متنازع کیوں ہے؟

What-was-in-the-PECA-Act-Amendment-Bill.jpg

پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی اور ایوان بالا یعنی سینیٹ سے منظوری کے بعد بدھ کو صدر مملکت آصف زرداری نے بھی الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) ترمیمی بل 2025 کی توثیق کر دی ہے۔اس حوالے سے پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن نے بدھ کو دعویٰ کیا تھا کہ صدر آصف زرداری نے پیکا ایکٹ پر دستخط نہ کرنے کی ان کی درخواست قبول کر لی ہے۔تاہم اب ایوان صدر سے جاری بیان کے مطابق صدر نے پیکا ایکٹ پر دستخط کر دیے ہیں۔

آخر اس قانون میں ایسا کیا ہے جو اس کے خلاف احتجاج کا سبب بن رہا ہے؟

صحافتی تنظیمیں اس بل کو "صحافیوں کی آواز دبانے والا کالا قانون” قرار دیتے ہوئے ملک بھر کے مختلف شہروں میں سراپا احتجاج ہیں۔وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ یہ بِل پروفیشنل صحافیوں کے خلاف نہیں بلکہ فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف ہے۔ان کا اصرار تھا کہ ڈیجیٹل میڈیا پر کوئی کچھ بھی کہہ دیتا ہے اور اس پر صحافت کے نام پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔بقول عطا تارڑ: پیکا ترمیمی بل ڈیجیٹل میڈیا کے لیے ہے، ڈیجیٹل میڈیا پر جھوٹ اور پروپیگنڈے کی کوئی جواب دہی نہیں ہے۔لیکن اس بل میں ایسا کیا ہے کہ صحافتی تنظیمیں اور اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتیں اس کے خلاف احتجاج کرتی نظر آ رہی ہیں؟

نافذالعمل ہونے کے بعد کیا واقعی اس قانون سازی سے صحافیوں کی آواز دبائی جا سکتی ہے؟ کیا اس سے ایک عام شہری بھی متاثر ہو سکتا ہے؟ اگر ہاں تو کیسے؟وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جانب سے مرتب اور بعد ازاں وزارت داخلہ کو منتقل کیے گئے ترمیمی بل کے تحت جھوٹی اور جعلی معلومات پھیلانے کی سزا تین سال تک قید یا 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گی، یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔بل کے مسودے کے مطابق نئی شق ون-اے کے تحت ’سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘ قائم کی جائے گی، جس کا کام ’غیر قانونی مواد‘ کی روک تھام ہو گا۔

"غیر قانونی” مواد کی تعریف کیا ہے؟

بل کے مطابق ایسا مواد جو پاکستان کے نظریے کے خلاف ہو، جو افراد کو قانون ہاتھ میں لینے کے لیے اشتعال دلائے یا اس تناظر میں عوام، افراد، گروہوں، کمیونٹیز، سرکاری افسران اور اداروں کو خوف میں مبتلا کرے، غیر قانونی مواد ہے۔ایسا مواد جو عوام یا ایک سیکشن کو سرکاری یا نجی جائیداد کو نقصان پہنچانے کے لیے اشتعال دلائے، قانونی تجارت یا شہری زندگی میں خلل ڈالے، ایسا مواد بھی غیر قانونی ہو گا۔تشدد کو ہوا دینے یا اندرونی خلل پیدا کرنے کے لیے مذہبی، فرقہ وارانہ یا نسلی بنیادوں پر نفرت اور توہین کو ہوا دینے والا مواد بھی غیرقانونی ہو گا۔بل کے مطابق پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین، عدلیہ، مسلح افواج سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے، ریاستی اداروں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے والا مواد بھی غیرقانونی ہو گا۔یہ قانون نافذالعمل ہونے کے بعد سپیکر قومی و صوبائی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی جانب سے حذف کیے جانے والے الفاظ نشر نہیں کیے جا سکیں گے جبکہ کالعدم تنظیموں کے سربراہان اور نمائندوں کے بیانات کسی بھی طرز پر نشر کرنا بھی غیر قانونی مواد کے زمرے میں آئے گا۔

سزا کسے ہو گی؟

منظور کردہ ترمیمی بل کے متن کے مطابق سزا دیے جانے کے لیے کیے گئے اقدام کی تعریف بھی دی گئی ہے۔اس کے مطابق: ’جھوٹی اور جعلی معلومات پھیلانے پر سزا اسے ہو گی جو جان بوجھ کر کسی بھی انفارمیشن سسٹم کے ذریعے کوئی بھی معلومات کو پھیلاتا، عوامی طور پر ظاہر کرتا ہے، یا منتقل کرتا ہے، جسے وہ جانتا ہے یا جس کے متعلق اسے یقین کرنے کی کوئی وجہ ہو کہ وہ جھوٹی یا جعلی ہے اور اس سے خوف پیدا کرنے یا پیدا ہونے کا امکان ہو، عام لوگوں یا معاشرے میں خوف و ہراس یا بدامنی پھیلتی ہو۔‘

ریگولیٹری اتھارٹی

سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی، سماجی رابطے کے پلیٹ فارمز کی بقول اس قانون کے سہولت کاری کرے گی اور صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کی مجاز ہو گی اور رجسٹریشن کے معیارات کا تعین کرنے اور رجسٹریشن منسوخ کرنے کی بھی مجاز ہو گی۔یہ اتھارٹی پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کر سکے گی۔ اس کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیرقانونی مواد ہٹانے کی ہدایت بھی جاری کر سکے گی۔یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں پر فرد کی شکایت پر 24 گھنٹے کے اندر کارروائی کرے گی اور اس کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہو گا۔یہ ادارہ متعلقہ اداروں کو مواد بلاک کرنے کے حوالے سے ہدایات دے سکے گا، جس کی مدت 30 روز ہو گی، جس میں مزید 30 روز کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب یہ اتھارٹی دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں کے ساتھ بھی اشتراک کرتے ہوئے کام کر سکے گی اور معلومات شیئر کر سکے گی۔اس اتھارٹی میں چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا اور سیکرٹری داخلہ بطور ایکس آفیشو رکن شامل ہوں گے۔ بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سال کا تجربہ رکھنے والے فرد کو اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جا سکے گا۔ترمیمی بل کے مسودے کے مطابق اتھارٹی کے چیئرمین اور پانچ اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی جبکہ اس اتھارٹی میں صحافیوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ان پانچ اراکین میں سے ایک صحافی ہو گا، جس کا 10 سالہ تجربہ ہو گا۔ اس کے علاوہ اتھارٹی میں سافٹ ویئر انجینیئر، وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل اور نجی شعبے سے آئی ٹی ماہر بھی شامل ہوں گے۔نو اراکین پر مشتمل اس اتھارٹی میں چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا اور سیکرٹری داخلہ بطور ایکس آفیشو رکن شامل ہوں گے۔ بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سال کا تجربہ رکھنے والے فرد کو اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جا سکے گا۔

ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ تحلیل ہو گا؟

منظور کردہ بل کے نفاذ کے بعد نیشنل سائبر کرائم ایجنسی قائم کی جائے گی جس کے تحت تحقیقات اور پراسیکیوشن کی جائے گی۔ اس ایجنسی کے قیام کے بعد ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ تحلیل کر دیا جائے گا اور اس سے منسلک تمام اہلکار، کیسز، تحقیقات و انکوائریاں، اثاثے، بجٹ اور جائیداد نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کو منتقل کر دیے جائیں گے۔

سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل و ٹربیونل کا قیام

قانون کے نفاذ کے بعد سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل بھی بنائی جائے گی جو ایک چیئرمین اور چار اراکین پر مشتمل ہو گی۔ یہاں عام افراد، تنظیموں اور شخصیات کی شکایات وصول کی جائیں گی جن کا بعد ازاں جائزہ لیا جائے گا۔اس کے علاوہ پیکا ایکٹ ترمیمی بل کے تحت ٹربیونل قائم کیے جائیں گے، ریگولیٹری اتھارٹی کے فیصلے سے متاثرہ شخص یہاں درخواست دے سکے گا، جبکہ ٹربیونل کے فیصلے سے متاثرہ شخص 60 روز کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکے گا۔ٹربیونل تمام مقدمات کے فیصلے 90 روز میں کرے گا۔ ٹربیونل کے چیئرمین ہائی کورٹ کے جج کی اہلیت رکھنے والا فرد ہو گا اور اس میں ایک سافٹ ویئر انجینیئر اور ایک صحافی رکن بھی شامل ہوں گے۔

پیکا کے خلاف احتجاج کیوں؟

28 جنوری، 2025 کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے زیر انتظام پیکا قانون سازی کے خلاف ملک کے اہم شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔پی ایف یو جے کے سابق سیکرٹری جنرل ناصر زیدی نے اس حوالے سے سے گفتگو میں بتایا کہ منظور کردہ بل میں قانون کے سکوپ کو وسیع کر دیا گیا ہے جس میں شخصی آزادی اور سزا کے طریقہ کار کو بھی بڑھایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت جب بھی کوئی قانون لے کر آتی ہے تو یہی کہتی ہے کہ یہ تمام شہریوں کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف ان کے لیے ہے جو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔وزیر قانون کے بیان پر کہ اس بل پر گذشتہ ساڑھے تین برس سے مشاورت جاری تھی، ناصر زیدی نے کہا وہ غلط بیانی کر رہے ہیں۔ عمران خان کے دور حکومت میں ہم سے رابطہ کیا گیا جس پر ہم نے اس برس کی کسی بھی قانون سازی کی شدید مخالفت کی۔

ادھر ایڈووکیسی گروپ فورم فار ڈیجیٹل رائٹس اینڈ ٹیموکریسی (ایف ڈی آر ڈی) نے بھی پیکا کو سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بامعنی مشاورتی عمل کے بغیر پارلیمنٹ سے منظور کروائے جانے کو مسترد کردیا ہے۔ یہ ایڈووکیسی گروپ گذشتہ نومبر میں انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ، ایڈووکیسی اینڈ ڈیولپمنٹ (آئی آر اے ڈی اے) کے زیر اہتمام ملک گیر سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے دوران تشکیل دیا گیا تھا۔

راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس (آر آئی یو جے) کے سیکرٹری جنرل آصف بشیر چوہدری نے کہا کہ ہم سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے غیرجانبدارانہ چیک یا ریگولیشن کے حامی ہیں اور شاید اسی لیے حکومت نے ہم سے مشاورت بھی نہیں کی تاکہ من پسند قانون لایا جا سکے۔‘آصف بشیر نے کہا ٹریبیونل ہو یا اتھارٹی، اس میں تمام افراد کی تعیناتی حکومت کرے گی۔ بہتر ہوتا کہ کسی پارلیمانی کمیٹی کو یہ تمام کام تفویض کیا جاتا تاکہ حکومت اور اپوزیشن ملک کر اس پر بیٹھتے، اس طرح بہتر تعیناتیاں ہوتیں۔ ’ہمارا اس پر ایک اور اعتراض ہے کہ فیک نیوز اور غیرقانونی مواد اتنے مبہم الفاظ ہیں کہ ان میں کسی بھی فرد کو لایا جا سکتا ہے، اس کی تعریف ہی نہیں ہو سکتی۔ یہ بالکل صادق اور امین کی تعریف جیسا ہے۔انہوں نے بل سے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’ملک کے استحکام‘ کی تعریف کا تعین کون کرے گا؟ یہ ڈریکونین قانون ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر رائے دینے کو مجرمانہ رنگ دینا بھی غلط ہے۔

دو افریقی ممالک کے بعد پاکستان تیسرا ایسا ملک ہوگا جہاں رائے دینا قابل دست اندازی پولیس congnizable offence رکھا گیا ہے۔دوسری جانب ڈیجیٹل حقوق پر کام کرنے والے ادارہ ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن کی بانی نگہت داد نے منظور کردہ بل کو تشویش ناک قرار دیا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ منظور کردہ بل میں ’فیک نیوز اور غلط معلومات کے الفاظ کو وسیع طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔اس بل میں نیت پر بھی مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔ حکومت شدید سزاؤں کو متعارف کروا رہی ہے۔نگہت کے مطابق یہ ایک خطرناک اقدام ہے کیونکہ آپ کی خلاف کوئی بھی شکایت کنندہ ہوسکتا ہے۔ عمومی طور پر متاثرہ فریق ہی درخواست دے سکتا ہے لیکن یہاں کو ہی بھی یہ درخواست دے سکتا ہے۔

حکومت آن لائن مواد کو کرمنالئز کر رہی ہے جس کے بعد خصوصی طور پر وی لاگرز کے لیے کوئی بھی خبر تصدیق کے بغیر دینا مشکل ہو گا۔ایف ڈی آر ڈی کا مطالبہ ہے کہ حکومت میں اختیارات کا کوئی ارتکاز نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم، اس ترمیم کے معاملے میں، غیر معقول مقدار میں اختیارات ایگزیکٹو برانچ کے پاس رکھے گئے ہیں۔فورم سمجھتا ہے کہ وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کو نہ صرف اس کی ساخت اور پالیسی ہدایات جاری کرکے کنٹرول کرتی ہے بلکہ سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل اور سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل میں بھی ممبران کی تقرری کرتی ہے جس سے غیر جانبداری پر شدید تحفظات پیدا ہوتے ہیں۔ ہم سفارش کرتے ہیں کہ ایسے اداروں میں تقرریوں میں پارلیمانی نگرانی اور سول سوسائٹی اور دیگر سٹیک ہولڈرز کی رائے شامل ہونی چاہیے۔گروپ کا اصرار ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ٹربیونل کے ممبران کی تقرری، جو ایک عدالتی فورم ہے، اختیارات کی تقسیم کے آئینی اصول کو کمزور کرتا ہے۔

مثال کے طور پر ہائی کورٹس کو سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے فیصلوں کے خلاف اپیلیٹ فورم کے طور پر کام کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ اگر ٹریبونل کے ارکان کی ضرورت ہو تو انہیں اعلیٰ عدلیہ سے لیا جانا چاہیے۔‘حد سے زیادہ اور مبہم نوعیت کی وجہ سے اس قانون کی شخصی تشریحات کا خطرہ موجود ہے اور ممکنہ طور پر آن لائن حقیقی تقریر کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ اس سے ان تنظیموں کی جانب سے شہریوں کے خلاف مقدمات کا سیلاب امڈ سکتا ہے، جس سے طاقتور اداروں کو ان پر تنقید کرنے والے بیانیے کو دبانے میں مدد مل سکتی ہے۔ ہم ان دفعات کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے واضح تشریح کی سفارش کرتے ہیں۔قید یا بھاری جرمانے کی دھمکی افراد، صحافیوں، کارکنوں اور ناقدین کی قانونی نتائج کے خوف سے اہم معاملات پر بولنے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے، چاہے ان کے بیانات سچے ہوں یا نیک نیتی سے دیے گئے ہوں۔ ’یہ ترمیم سٹیٹس کو کو چیلنج کرنے والی آوازوں کو خاموش کر دے گی، عوامی بحث کو دبا دے گی اور احتساب کو ختم کر دے گی۔‘فورم نے اس حساس معاملے پر سب صحافی اور غیرسرکاری تنظیموں کو مل کر لائحہ عمل بنانے کی دعوت بھی دی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے