مغرب سنجیدہ ہے تو جوہری پروگرام پر مذاکرات کیلئے تیار ہیں، ایران
ایران کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ اگر مغربی ممالک ’سنجیدگی‘ ظاہر کرتے ہیں تو تہران اپنے جوہری پروگرام پر بات کرنے کے لیے تیار ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اسمعٰیل بقائی کا کہنا تھا کہ ہم نے متعدد بار بات چیت کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے، لیکن صرف اس صورت میں جب دوسرا فریق اس بارے میں سنجیدہ ہو۔تہران نے حال ہی میں متعدد بار مغرب کو اشارہ دیا ہے کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہے۔اسمٰعیل بقائی نے امید ظاہر کی کہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے حوالے سے ’حقیقت پسندانہ رویہ‘ اپنائیں گے۔
نئی بات چیت کے امکان کے بارے میں پوچھے جانے پر ترجمان ایرانی دفتر خارجہ نے کہا کہ ایران کی پالیسی ’دوسرے فریقوں کے اقدامات‘ پر منحصر ہوگی۔دسمبر میں، تین مغربی حکومتوں نے تہران پر الزام لگایا تھا کہ وہ انتہائی افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو ’غیرمعمولی سطح‘ تک بڑھا رہا ہے اور اس پر ممکنہ طور پر پابندیوں کے دوبارہ نفاذ پر تبادلہ خیال کیا جاسکتا ہے۔اسمٰعیل بقائی نے خبردار کیا کہ اگر ایسا ہوا تو ایران کے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی پاسداری کا کوئی مطلب نہیں رہے گا۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارت کے دوران ’ڈونلڈ ٹرمپ زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی پر عمل کیا، اور امریکا کو تاریخی جوہری معاہدے سے نکال دیا، جس کے تحت پابندیوں میں ریلیف کے بدلے ایران کے جوہری پروگرام پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔واشنگٹن کے دستبرداری تک تہران اس معاہدے پر قائم رہا، جسے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کے نام سے جانا جاتا ہے، بعد ازاں ایران اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹا شروع ہوا جبکہ 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئی تھیں۔