مشرق وسطی اور ڈونلڈ ٹرمپ کی سجی کھبی
ہم ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی جیت سے قبل یہ بات متواتر لکھ چکے کہ اگر وہ جیت گئے تو ان کا یہ دوسرا دور بہت مختلف ہی نہیں ہنگامہ خیز بھی ثابت ہوگا۔ بالعموم ہوتا یہ ہے کہ امیدوار انتخابی مہم کے دوران کہتا بہت کچھ ہے۔ مگر جب جیت جاتا ہےتو ثابت کردیتا ہے کہ سیاسی وعدے کیے ہی اس لیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مزے لے لے کر توڑا جاسکے۔ مثلا آپ باراک اوباما کی پہلی انتخابی مہم ہی لے لیجیے۔ ان کا سب سے بڑا انتخابی وعدہ یہ تھا کہ وہ امریکا کو عراق اور افغان جنگ سے باہر نکالیں گے۔ مگر الیکشن جیتتے ہی انہوں نے افغانستان میں 35 ہزار مزید فوجی بھیج دیے تھے۔ اور افغان جنگ سے نجات کا عمل ڈونلڈ ٹرمپ کے حصے میں آیا تھا۔انتخابی وعدوں کی نسبت سے ڈونلڈ ٹرمپ بہت مختلف ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے جیت والی رات ہی جشن فتح کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہہ دیا تھا
’وعدے ہوئے ہیں، اور وعدے نبھائے جائیں گے‘۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد صرف ایک ہفتے میں ہی وہ اپنے بہت سے وعدوں کی جانب پیش رفت کرتے نظر آئے ہیں۔ مگر ان کا سب سے حیران کن قدم اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کو لگام ڈالنا ہے۔ یہ وہ اقدام ہے جس کا انہوں نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ بھی نہ کیا تھا۔ اس کے برعکس صورتحال یہ رہی تھی کہ بین الاقوامی امور کے آزاد ماہرین اس بات پر لگ بھگ متفق تھے کہ غزہ کے معاملے میں وہ جو بائیڈن سے بھی دو ہاتھ آگے جائیں گے۔ جیت کے بعد غزہ سے متعلق ان کے ایک اظہار خیال نے بھی اس تاثر کو قوت بخش دی تھی۔ ٹرمپ نے کہا تھا’اگر میرے حلف اٹھانے سے قبل جنگ بندی نہ ہوئی، اور یرغمالی رہا نہ ہوئے تو جہنم کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔
بظاہر یہی نظر آرہا تھا کہ یہ بات وہ غزہ کے مزاحمت کاروں سے کہہ رہے ہیں۔ مگر جب ان کی دھمکی نے نتائج مہیا کیے تو دنیا بھر کے ماہرین یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ انہوں نے سجی دکھا کر کھبی مار دی ہے۔ ان کے حلف اٹھانے سے قبل ہی مشرق وسطی کے لیے ان کا نامزد نمائندہ اسٹیو ویٹکوف قطر میں تھا۔ جب سیز فائر کی خبر بریک ہوئی تو امریکی صدر جو بائیڈن اپنے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کی معیت میں وائٹ ہاؤس کے روسٹرم پر نمودار ہوئے اور اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اپنے پورے دور اقتدار میں مخبوط الحواس جو بائیڈن صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرنے سے مستقل گریزاں رہے تھے۔ غزہ سیز فائر کا کریڈٹ لینے کی کوشش کے دوران بھی انہوں نے ایسا ہی کیا۔ وہ اپنی بات کرکے واپسی کے لیے پلٹے تو خاتون صحافی نے سوال کیا
’یہ آپ کا کارنامہ ہے یا ڈونلڈ ٹرمپ کا؟‘
جو بائیڈن بس ایک لمحے کو پلٹے اور اتنا کہہ کر چل دیے
’آپ مذاق کر رہی ہیں نا؟‘
مگر اگلے 24 گھنٹوں میں سب کچھ عیاں ہوگیا۔ عرب ہی نہیں اسرائیلی اخبارات نے بھی حقیقت کھول کر رکھ دی۔ سامنے آنے والی تفصیلات میں خود اسرائیلی اخبارات نے لکھا کہ جنگ بندی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن تھے۔ وہ بظاہر امن کی بات کرتے مگر پس پردہ نیتین یاہو کی کمر تھپکتے کہ قتل عام جاری رکھو۔اسرائیلی اخبارات نے ہی یہ حقیقت بھی عیاں کی کہ یہ ٹرمپ کے نمائندے اسٹیو ویٹکوف تھے جنہوں نے نیتن یاہو کو شٹ اَپ کال دی اور دھمکی دی اگر ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے قبل جنگ بندی نہ ہوئی تو ٹرمپ کے پہلے دن کے فیصلوں میں یہ فیصلہ بھی شامل ہوگا کہ اسرائیل کی مالی، دفاعی اور سفارتی ہر طرح کی سپلائی لائن کاٹ دی جائے گی۔ یہی وہ ٹرمپ کارڈ ہے جو ہر امریکی صدر کے پاس اسرائیل کے خلاف ہوتا ہے۔ 30 برس قبل بل کلنٹن نے بھی اسی نیتن یاہو کے خلاف یہ کارڈ استعمال کیا تھا۔ اور نیتن یاہو کو اس حد تک جھکنا پڑا تھا کہ موساد کے 2 ایجنٹوں کی رہائی کے بدلے حماس کے بانی شیخ احمد یاسین سمیت 50 کمانڈر رہا کرنے پڑے تھے۔
سو اس بار بھی نیتن یاہو کو جھکنے میں دیر نہ لگی۔ اس پورے معاملے میں 2 مزید باتیں قابل غور ہیں۔ پہلی یہ کہ ٹرمپ کی حلف برداری والی رات جشن کی تقریب سے اسٹیو ویٹکوف سے خاص طور پر خطاب کروایا گیا۔ ویٹکوف نے اس خطاب میں نام لیے بغیر اسرائیل کو وارننگ دیصدر ٹرمپ کو لیپا پوتیاں نہیں چاہییں۔ انہیں امن کے سلسلے میں ٹھوس عملی اقدامات درکار ہیں۔ وہ دن گزر گئے جب مفت خوراک ملا کرتی تھی۔ جو خود کو نہ سنبھال سکتا ہو اس کے لیے ہم کچھ نہ کریں گے۔دوسری اہم بات یہ کہ اقتدار سنبھالنے کے اگلے ہی روز خود ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے ہمکلام تھے۔ وہاں غزہ کا ذکر آیا تو ٹرمپ نے اس پر کچھ اس طرح اظہار خیال کیامیں نے غزہ کی تصاویر دیکھی ہیں۔ اسے بہت بری طرح تباہ کیا گیا ہے۔ یہ جگہ اب پہلے سے بھی بہتر تعمیر ہونی چاہیے۔
دنیا کے لیے یہ سب اس لیے بھی حیران کن تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے لیے اسرائیلی لابی کی اہم رکن میریم ایڈلسن سے 100 ملین ڈالر کا چندہ وصول کیا تھا۔ چنانچہ جن ماہرین کی رائے تھی کہ ٹرمپ غزہ کے لیے جو بائیڈن سے بھی زیادہ مہلک ثابت ہوں گے وہ اس چندے کا باقاعدہ حوالہ دیتے تھے۔ مگر اب یہ عقدہ بھی کھل گیا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا میں ایک ٹریلین ڈالرزانویسٹ کرنے جا رہے ہیں۔ یہ سمجھنا کونسا دشوار ہے کہ میریم ایڈلسن کے 100 ملین ڈالرز محمد بن سلمان کے ایک ٹریلین کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔غزہ سیز فائر کا اسرائیلی سماج اور سیاست دونوں پر بہت گہرا اثر اس وقت پڑا جب اس معاہدے پر عملدرآمد شروع ہوا۔ اسرائیلی شہریوں کو یقین تھا کہ اپنی 50 ہزار ہلاکتوں کا انتقام حماس نے یرغمالیوں سے ضرور لیا ہوگا۔ جسمانی نہیں تو نفسیاتی تشدد سے تو انہیں ضرور گزارا گیا ہوگا۔ چنانچہ رہائی والے روز ایمبولینسز اور ملٹری ہسپتال دونوں کو اسٹینڈ بائی رکھا گیا تھا۔ لیکن حماس نے دنیا کو حیرت کا ایسا شدید جھٹکا دیا کہ بی بی سی بھی لائیو شو میں اپنی حیرت نہ سنبھال سکا۔ حماس نے اس موقع کو کا بھرپور اخلاقی و سیاسی استعمال کیا۔ چاروں خواتین فوجی یرغمالی یونیفارم میں حماس کے اسٹیج پر یوں ہنستی جھومتی نمودار ہوئیں جیسے کسی شاندار ورلڈ ٹور سے لوٹ رہی ہوں۔ وہ کسی بھی اینگل سے یرغمالی لگ ہی نہیں رہی تھیں۔ جسمانی صحت قابل رشک اور باڈی لینگویج شاداں تھی۔
صرف یہی نہیں بلکہ ان خواتین نے رہائی سے قبل حماس کو ویڈیو پیغام بھی ریکارڈ کرایا ہے جو یوٹیوب پر موجود ہے۔ اظہار تشکر کے وہ پیغامات عربی زبان میں ہیں۔ کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ قیدی کے پاس آپشنز ہی کہاں ہوتے ہیں؟ اس سے تو کچھ بھی کہلوایا جاسکتا ہے۔ عملی طور پر یہ بات معقول بھی ہے۔ مگر آپ ویڈیو پیغامات میں ان خواتین کی باڈی لینگویج کا کیا کریں گے؟ بیہیویئر سائنس و باڈی لینگویج کا کوئی بھی ماہر تصدیق کرسکتا ہے کہ یہ پیغامات کسی جبر کا نتیجہ نہیں ہیں۔اسرائیلی معاشرے اور سیاست پر اس کا سب سے بڑا اثر یہ پڑا ہے کہ خود اسرائیلی شہری اس بات کا برملا اظہار کر رہے ہیں کہ حماس سے متعلق عالمی میڈیا جو کچھ کہتا ہے، ہم اس پر یقین کرکے شاید بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ ہم نے ان کے 50 ہزار بچے، جوان، بوڑھے اور خواتین ماردیے۔ لیکن اس اتنے بڑے قتل عام کا اسرائیلی یرغمالیوں پر حماس نے کوئی غصہ نہیں اتارا۔ انہیں بحفاظت ہی نہیں بلکہ صحتمند بھی رکھا۔ اگر کوئی یرغمالی مرا بھی ہے تو وہ حماس نہیں بلکہ اسرائیلی بمباری سے مرا ہے۔
رہائی کے مناظر کا دوسرا بڑا سیاسی اثر یہ ہے کہ نیتن یاہو گزشتہ ایک ماہ سے اپنی فتح کا اعلان کیے جا رہا تھا۔ اسرائیلیوں کو بتا رہا تھا کہ حماس مٹا دی گئی، اور اس کی سرنگوں کا نیٹورک تباہ کردیا گیا۔ مگر قیدیوں کے تبادلے والے روز حماس سرنگوں سے برآمد ہوئی اور پورے غزہ پر چھا گئی۔ ہر طرف اس کے مسلح دستے پھیلے نظر آئے، اور پورا غزہ اس کے کنٹرول میں دکھا۔ سب سے اہم چیز یہ کہ غزہ کے شہریوں کا ان کے لیے والہانہ پن ثابت کر رہا تھا کہ اسرائیلی قتل عام حماس اور اہل غزہ میں کوئی دراڑ ڈالنا تو دور خفیف سی لکیر بھی پیدا نہیں کرسکا۔ حماس اب بھی اہل غزہ کا قابل فخر اثاثہ ہے۔رہائی اور اس کے بعد کی صورتحال پر سب سے بھرپور تبصرہ اسرائیل کے سابق مذاکرات کار ڈینیل لیوی نے کیا ہے۔ ڈینیل نے اپنے ویڈیو انٹریو میں کہارہائی کے اس عمل کا اسرائیلی عوام کی نفسیات پر جو اثر ہوا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہر شخص نے وہ مناظر دیکھے ہیں۔ اسرائیلی شہریوں کو بتایا گیا تھا کہ القسام کو شکست دیدی گئی ہے۔ انہیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ غزہ کے شہری ان کے مخالف ہوگئے ہیں۔ اور اب انہوں نے یہ مناظر دیکھے کہ ایک ایسی قابض فوج جسے دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت امریکا کی بھی مدد حاصل تھی۔ یعنی ایٹمی طاقت سے لیس اسرائیل اور مزاحمتی تحریک کے مابین تصادم نے ثابت کیا کہ یہاں سب سے طاقتور فورس حماس ہے، اور وہ بھی بہت بڑی قوت کے ساتھ۔اسرائیلی اور مغربی میڈیا کا سارا پروپیگنڈا غلط ثابت ہوگیا۔ القسام کا بیانیہ ہر طرف چھا گیا ہے، اور اسرائیلی بیانیے کا اس وقت برا حال ہے‘۔
عرب شاعر صدیوں قبل کہہ گیا
الفضل ماشہدت بہ الاعداء
ترجمہ اس کا یہ ہے کہ برتری وہ ہے جس کی گواہی دشمن بھی دے۔ سو ڈینیل لیوی کا انٹرویو حماس کی برتری کی وہ گواہی ہے جو دشمن علانیہ دے رہا ہے۔
اس پورے پس منظر میں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ بدلے میں اسرائیل کو بھی کچھ دیتے ہیں یا نہیں؟ اور اگر دیتے ہیں تو کیا؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ سیاست میں صرف لینا ہی نہیں ہوتا دینا بھی ہوتا ہے۔ گیو اینڈ ٹیک سیاست کا گویا ماٹو ہے۔ اسی انتظار میں ہم نے اس موضوع پر قلم اٹھانے میں خاصی دیر کردی مگر تاحال وہ سامنے نہ آسکا جو اسرائیل کو ملنا ہے۔ سو انتظار ہی واحد آپشن ہے۔ اسٹیو ویٹکوف ایک بار پھر مشرق وسطیٰ میں ہیں۔ اور اس بار وہ پورے اختیار کے ساتھ بھی ہیں۔ ان کا صدر اب امریکا کا باقاعدہ صدر ہے۔ آنے والے ایام میں سعودی کردار اہم تر ہوتا جائے گا۔ طے ہونے والے معاملات میں سعودی ولی عہد کا رول کلیدی ہوگا کہ سعودی عرب ہی عرب دنیا کا قائد ہے۔ وہ قائد جس کی اب ایران کے ساتھ بھی دشمنی باقی نہیں رہی۔ سو امریکا کی جانب سے ماضی کی طرح اسے ایرانی ڈراوے بھی نہیں دیے جاسکتے۔