عسکریت پسندی کے بڑھتے خطرات اور امریکی ساختہ اسلحہ!
ملک میں عسکریت پسندی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد پاکستانی حکام کی طرف سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا جاتا رہا ہے کہ افغانستان سے انخلا کے وقت امریکی اور بین الاقوامی افواج جو جدید خودکار اسلحہ چھوڑ کر چلے گئے تھے وہ شدت پسندوں کے ہاتھ لگ چکا ہے جس سے پاکستان کے لیے چیلنجز میں اضافہ ہوا ہے۔ماضی قریب میں صوبہ خیبر پختونخوا، خصوصاً پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کے بعد یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اس میں امریکی ساختہ اسلحہ استعمال ہوا۔لیکن رواں ہفتے بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ میں ایف سی کی چوکی پر حملے کے بعد بھی وہاں تعینات افسران نے کہا کہ حملے میں مارے گئے عسکریت پسندوں سے جو اسلحہ ملا وہ امریکی ساخت ہی کا ہے۔امریکی افواج کا چھوڑا ہوا اسلحہ عسکریت پسندوں کے ہاتھ میں لگنے پر پہلی مرتبہ کھلے عام بات 2023 میں اس کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کی۔
اگرچہ اس سے قبل بھی اس بارے میں باتیں ہوتی رہیں لیکن انوار الحق کاکڑ نے اس معاملے کی سنگینی بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جدید خودکار اسلحہ عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگنے سے خطے کے امن کے لیے ایک نیا چیلنج بن گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کی طرف سے چھوڑا گیا اسلحہ عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگنے سے ان کی پاکستان کے خلاف لڑائی کی استعداد میں اضافہ ہوا ہے کیوں کہ ان کے بقول شدت پسندوں کے ہاتھ لگنے والے فوجی سازوں سامان میں جدید خودکار اسلحے کے علاوہ رات کی تاریکی میں دیکھنے والی ’نائٹ ویژن عینک‘ بھی شامل ہیں۔افغان طالبان نے اگست 2021 میں کابل کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا جس کے بعد امریکہ اور اس کی اتحادی افواج نے لگ بھگ دو دہائی تک افغانستان میں رہنے کے بعد وہاں سے فوری انخلا کا فیصلہ کیا اور اس دوران وہ بھاری مقدار میں اسلحہ چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔پاکستان اس معاملے میں اگرچہ امریکہ کو مورد الزام نہیں ٹھہراتا البتہ یہ ضرور کہا جاتا رہا ہے کہ اس معاملے میں مربوط تعاون اور انتظام کی ضرورت تھی۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر عسکریت پسند گروں کے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملوں میں گذشتہ ایک سال سے زائد عرصے میں تیزی آئی ہے اور پاکستان کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو افغانستان کی سرزمین پر موجود ہیں جہاں سے وہ پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔تاہم افغان طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس عزم پر قائم ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی ملک خلاف شدت پسندی کے لیے استعمال نہ ہوا۔جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت بنی اسلام آباد اور کابل کے تعلقات میں بتدریج تلخی آئی ہے اور کی بڑی وجہ پاکستان میں شدت پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملے ہیں۔پاکستانی حکومت تواتر سے افغان طالبان کی حکومت سے یہ مطالبہ کرتی آئی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کی شدت پسند افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ کر سکیں۔
اگرچہ طالبان اس بات کی یقین دہانی بھی کراتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں لیکن شاید پوری طرح ایسے حملوں کو روکنا ان کے بس کی بات بھی نہیں کیوں وہاں موجود ٹی ٹی پی سمیت دیگر عسکریت پسند گروپوں کو مقامی آبادی کی حمایت تو حاصل ہی لیکن ساتھ ہی اب ان کے پاس ایسے ہتھیار اور وسائل بھی بھی آ گئے ہیں کہ انہیں روکنا یا ان سے نمٹنا آسان نہیں۔ان حالات میں عسکریت پسندوں کی عددی طاقت ہی نہیں بلکہ ان کے زیراستعمال جدید اسلحہ بھی پاکستان کے لیے ایک بڑا سکیورٹی چلینج ہے۔