امریکہ کی حمایت یافتہ لبرلزم: تاریخی پس منظر اور آج کے لٹریری فسٹیولز
امریکہ کی حمایت یافتہ “لبرلزم” اور “نیو لبرلزم” تحریکوں کا مطالعہ سرد جنگ کی حکمت عملیوں، خاص طور پر کانگریس فار کلچرل فریڈم (CCF) کے کردار کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ CCF کے بارے میں اب کئی تحقیقی مقالے اور چند کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ 1950 میں قائم ہونے والی CCF کو سی آئی اے کی طرف سے خفیہ طور پر مالی امداد فراہم کی گئی تھی تاکہ سوویت یونین کے اثرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔اس تحریک کا مقصد ایسی دانشورانہ اور ثقافتی تحریکوں کی حمایت کرنا تھا جو لبرل جمہوری اقدار کی حامی ہوں، لیکن ان میں سرمایہ داری کے فروغ کی کوئی واضح حکمت عملی شامل نہیں تھی۔ اس کے بجائے، CCF نے “آمرانہ” حکومتوں کے خلاف اظہار رائے کی آزادی، انفرادی حقوق، اور بائیں بازو کے نظریات کے مخالف مینیفیسٹوز کی ایڈووکیسی کو ترجیح دی۔ مغربی پولیٹیکل ڈکشن میں سوشلسٹ حکومتوں کو آمرانہ حکومتیں کہا جاتا تھا مگر امریکہ کے حامی فوجی آمروں “ہمارا حرامزادہ” کہہ کر قبول کر لیا جاتا تگا۔ اس طرح “اینٹی کمیونسٹ بایاں بازو” کا ایک نیا تصور پیدا ہوا، جو نہ صرف بائیں بازو کے رجحانات بلکہ عالمی سطح پر مغربی مفادات کے لیے ایک ماڈرن سٹریٹیجی بن گئی۔
سرد جنگ کے دوران، CCF نے مختلف اشاعتی منصوبوں، ثقافتی میلوں، اور دانشوروں کو گرانٹس، سہولیات، سکالرشپس کے ذریعے اپنے مقاصد کو فروغ دیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد مارشل پلان کے تحت نہ صرف یورپ کی تعمیر نو کی گئی بلکہ وہاں بائیں بازو کی تحریکوں کو بھی اسی سٹریٹجی کے تحت بے اثر کیا گیا۔ پاکستان میں بھی اس قسم کی سرمایہ کاری کا اثر واضح طور پر محسوس کیا گیا، جہاں کئی ثقافتی شخصیات اور دانشور CCF کے پلیٹ فارم پر جان بوجھ کر یا نادانستہ امریکی دائرے میں شامل ہوئے۔ان کی امریکی دائرے میں یہ شمولیت “انتہاپسند بائیں بازو” کے ایکٹوسٹ یا انقلابی کے طور پر نہیں تھی، بلکہ ایک وسیع حکمت عملی کا حصے کے طور پر تھی جو مغربی جمہوریت اور آزادی کے نظریات کی حمایت کرتا تھا۔ فیض احمد فیض جیسے معروف مارکسی شاعر بھی مغربی اور سوویت سرپرستوں دونوں سے مدعو کیے گئے، جو پاکستان کی عالمی طاقتوں کے درمیان کشمکش کو ظاہر کرتے ہیں۔ فیض نے البتہ اپنے استعمار مخالف اور سامراج مخالف نظریات پر سمجھوتہ نہیں کیا۔
سعدیہ طور کی 2011 میں شائع ہونے والی تحقیق The State of Islam: Culture and Cold War Politics in Pakistan نے اس بات کو بے نقاب کیا ہے کہ کس طرح مغرب نے اسی پالیسی کے ذریعے پاکستان میں مارکسی اور سامراج مخالف تحریکوں (anti-imperialist movements) کو سٹرٹیجک طور پر کمزور کیا۔ سعدیہ طور اپنی کتاب میں اپنے استدلال کے بارے میں لکھتی ہیں: “یورپ اور شمالی امریکہ میں ثقافتی سرد جنگ کی قیادت کمیونزم مخالف لبرلز نے کی تھی۔ یہی صورتحال پاکستان میں بھی تھی، اور میں یہ دکھانا چاہتی تھی کہ اس لبرل کمیونزم مخالف رجحان نے سیاست، سماج اور ثقافت پر کیا اثرات مرتب کیے۔ میری اس کتاب میں بنیادی دلیل یہ ہے کہ پاکستان میں رجعت پسند اسلامی سیاست کا عروج براہ راست بائیں بازو کی بطور ایک سیاسی اور ثقافتی رپریشن، مارجنلائزیشن اور بالآخر تباہی سے جڑا ہوا ہے، اور اس منصوبے میں کمیونزم مخالف لبرلز نے نمایاں کردار ادا کیا۔
ان کی تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ امریکہ نے سی آئی اے کی معاونت سے چلنے والے پروگرامز اور فنڈنگ کے ذریعے بائیں بازو کے اثرات اور ترقی پسند مصنفین کی تحریک کو غیر مؤثر کرنے کی کوششیں کیں۔ پاکستان میں، یہ کوششیں دانشوروں، ثقافتی اشرافیہ اور فنکاروں کو کوآپٹ کرنے کی شکل میں سامنے آئیں، تاکہ مغربی مفادات کے مطابق بیانیے کو فروغ دیا جا سکے۔ اپنی کتاب میں مس طور نے پاکستانی ادب اور فن کے بڑے ناموں کا بھی ذکر کیا ہے جو CCF سے سرد جنگ کے اُس دور میں مصتفیض ہوئے۔21ویں صدی میں، امریکہ کی فنڈنگ سے چلنے والی سول سوسائٹی تنظیموں، ماحولیاتی تحریکوں، اور ثقافتی سرگرمیوں جیسے ادبی میلوں (literary festivals) نے سرد جنگ کے دور کی نوعیت کی حکمت عملی کو اپنایا ہے۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں ہونے والے ادبی میلوں میں یہ تقریبات ظاہری طور پر مکالمہ اور دانشورانہ تبادلے کے پلیٹ فارم ہیں، لیکن یہ ایک قسم کی ثقافتی نوآبادیاتی (cultural colonialism) کے حربے ہیں، جو مغربی ایجنڈے کو فروغ دیتی ہیں۔ سویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد اب کیونکہ پاکستان کا دانشور طبقے ایک ایسا ریوڑ ہے جسے کوئی بھی ہنکا کر کہیں لے جائے کیونکہ بائیں بازو کی تحریک عنقا ہے۔ اس لیے مغربی ثقافتی نوآبادیاتی ایجنڈا بل چون و چرا فروغ پا رہا ہے۔
یہ میلوں، جو مغربی اقدار، انفرادیت، لبرل ازم اور صارفیت (consumerism) کو ترجیح دیتے ہیں، در حقیقت مقامی ثقافتوں اور اقدار سے متصادم ہیں۔ ایسے فنکار، مصنفین اور دانشور جو اس میں حصہ لیتے ہیں، اکثر اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کی آنکھ بند کر کے شمولیت کے پیچھے وسیع جغرافیائی اور سیاسی مقاصد ہیں۔ تاہم، کچھ افراد اس حقیقت سے آگاہ ہو کر جان بوجھ کر مغربی ایجنڈے کو فروغ دیتے ہیں، جو عالمی نیو لبرل مفادات کی حمایت کرتا ہے۔پاکستان میں غیر ملکی فنڈز سے چلنے والے ادبی میلوں کو ایک نرم طاقت (soft power) کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، جو مغربی ثقافتی اور دانشورانہ معیارات کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ میلے عموماً انگریزی زبان کے مصنفین اور لبرل تھیمز کو ترجیح دیتے ہیں جو مغربی نظریات سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔ اس کا نتیجہ مقامی ثقافتوں اور ادبی ورثے کے لیے ایک خطرہ بن رہا ہے، یہ طبقہ جسے میرے ایک استاد عبدالعزیز بٹ “کمپراڈور انٹلیکچؤلز” (comprador intellectuals) کہتے تھے، مقامی شناختوں اور جدوجہدوں کو نظرانداز کرتی ہیں۔
امریکہ نے تاریخی طور پر دانشورانہ اور ثقافتی لبرل تحریکوں کو اپنے اسٹریٹجک مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا ہے، CCF کی سرگرمیوں سے لے کر موجودہ ادبی میلوں (contemporary literary festivals) تک۔ موجودہ دور میں ایک اور نئی حکمت عملی یہ ہے کہ حکومتی مداخلت کے علاوہ نجی افراد بھی فنڈنگ کر رہے ہیں۔ جیسے جارج سوروس (George Soros)، ایلون مسک (Elon Musk)، بل گیٹس (Bill Gates) اور کئی مالدار افراد یا نجی اداروں کی طرف سے دنیا کے نظریات کو دوبارہ تشکیل دینے (worldview reshaping) میں سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔پاکستان میں، یہ اقدامات ثقافتی نوآبادیات (cultural colonization) کے جاری منصوبے کا حصہ ہیں، جو دانشورانہ اور ثقافتی منظرناموں کو مغربی اقدار (Western norms) کے مطابق ڈھالتے ہیں جبکہ مقامی شناختوں اور جدوجہدوں کو مارجنلائیز کر دیتے ہیں۔ سعدیہ طور کی تحقیق ایک اہم فریم ورک (framework) فراہم کرتی ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ یہ پروگرامز کس طرح منظم طور پر سامراج مخالف نظریات (anti-imperialist ideologies) کو منہدم کرتے ہیں، اور یہ کہ ترقی پذیر دنیا کے دانشورانہ اور ثقافتی تانے بانے (fabric) کو تشکیل دینے میں غیر ملکی ایجنڈوں کے خفیہ مگر وسیع اثر و رسوخ کے خلاف احتیاط کی ضرورت ہے