افغان طالبان سے مذاکرات، خیبر پختونخوا سے وفد چند دنوں میں روانہ ہو گا: پی ٹی آئی ذرائع

380435-1236016472.jpg

خیبر پختونخوا حکومت کے معاملات سنبھالنے کی ٹیم میں شامل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک اہم عہدیدار کا کہنا ہے کہ افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے ’چھوٹا گروپ‘ سرکاری سرپرستی میں افغانستان چند دنوں میں روانہ ہو گا۔بصیر میڈیا کو تصدیق کرتے ہوئے عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’سرکاری سرپرستی میں پہلے مرحلے میں ایک ’سمال گروپ‘ بنایا گیا ہے جو افغانستان کا دورہ کرکے افغان طالبان کے سرکردہ رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے۔انہوں نے بتایا، ’یہ گروپ چند دنوں میں افغانستان جائے گا اور اس کے بعد ایک بڑا گروہ بنایا جائے گا جس میں تمام شراکت دار بھی شامل ہوں گے۔‘عہدیدار، جو پی ٹی آئی کی مرکزی کور کمیٹی کا حصہ بھی ہیں، نے مزید بتایا کہ ’اس سے پہلے مسئلہ صوبائی حکومت کے مینڈیٹ کا تھا، ہم خود سے مذاکرات شروع نہیں کر سکتے۔چونکہ دہشت گردی کی سب سے زیادہ حدت خیبر پختونخوا میں ہی محسوس ہوتی ہے تو ماضی قریب میں ہونے والے کچھ اعلٰی سطحی اجلاسوں میں افغان طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔انہوں نے بتایا، ’ماضی قریب میں ایک اہم ملاقات کے بعد اب ایک چھوٹا گروہ بنایا گیا ہے جو مذاکراتی مرحلے کو شروع کرے گا۔

عہدیدار کے مطابق اس مذاکرات میں اکوڑہ خٹک نوشہرہ میں واقع دارالعلوم حقانیہ کی مدد بھی حاصل ہو گی کیونکہ ان کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔چند دن قبل صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے جامعہ حقانیہ کا دورہ کر کے وہاں کے منتظمین سے ملاقات کی تھی۔اس ملاقات کے سرکاری طور پر جاری بیان میں افغان طالبان سے مذاکرات کا کوئی ذکر تو نہیں تھا لیکن عہدیدار کے مطابق وہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے رواں سال 21 جنوری کو وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے ڈیرہ اسماعیل خان میں تقریب سے خطاب میں بتایا کہ جلد ہی مذاکراتی جرگہ افغانستان جائے گا۔علی امین کے مطابق مذاکراتی وفد میں قبائلی عمائدین اور مشران بھی شامل ہوں گے جو افغان عبوری حکومت سے بات چیت کریں گی۔کچھ دن پہلے پشاور میں پاکستان فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کی وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا سمیت سیاسی جماعتوں کے نمائندگان سے ملاقات ہوئی تھی۔

اس ملاقات میں شامل سیاسی جماعت کے ایک نمائندے نے بتایا تھا کہ آرمی چیف سے ملاقات کے دوران صوبائی حکومت کو بات چیت کرنے کا بتایا گیا تھا تاکہ اس مسئلے کا حل نکل آئے۔مذاکراتی عمل شروع کرنے کے پس منظر کے حوالے سے عہدیدار نے بتایا کہ وفاقی حکومت اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لے رہی تھی اور خیبر پختونخوا حکومت کا یہ مینڈیٹ نہیں تھا کہ وہ مذاکرات شروع کر دیتے۔گذشتہ برس دسمبر میں بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں سے ملاقات میں وزیر اعلٰی علی امین گنڈاپور نے بھی مذاکرات کا ذکر کیا تھا۔علی امین گنڈاپور نے بتایا تھا کہ جب میں خود مذاکرات کی بات کی تھی تو اس سے پتہ نہیں لوگوں نے کیا بنا لیا تھا لیکن اب وفاقی حکومت نے مذاکرات شروع کرنے کے حوالے سے بتایا ہے۔اس وقت وزیر اعلٰی نے بتایا تھا کہ شدت پسندی سے سب سے زیادہ متاثرہ ہمارا صوبہ اور یہاں کے عوام ہیں تو ہماری ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ اس مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔کیا یہ مذاکرات کاالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ہوں گے، اس کے جواب میں اعلٰی عہدیدار نے بتایا کہ افغان طالبان کے سرکردہ رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوں گی اور افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں گے۔

افغان حکومت سے مذاکرات کا ذکر اگست 2023 میں پاکستان فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے اس وقت قبائلی عمائدین سے ملاقات کے دوران بھی کیا تھا۔اس وقت پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں جنرل عاصم منیرنے بتایا تھا کہ، ’اگر مذاکرات ہوئے تو وہ صرف پاکستان اور افغان عبوری حکومت کے مابین ہوں گے اور کسی بھی دہشت گرد گروہ یا جتھے سے بات نہیں کی جائے گی۔یاد رہے کہ گذشتہ سال اگست میں ایک انٹرویو میں افغان طالبان کے مرکزی کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پاکستان کا ’اندرونی معاملہ‘ قرار دیتے ہوئے پیشکش کی تھی کہ اگر اسلام آباد چاہے تو امارت اسلامیہ دونوں فریقوں کے درمیان ثالثی کی کوشش کر سکتی ہے۔ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا تھا، ’اس صورت میں ہم ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں جب پاکستان چاہے۔ پاکستانی حکومت اگر چاہے تو پھر ہم بھائی چارے کے اصولوں پر اپنی کوششیں کریں گے۔اس سے پہلے پاکستانی حکومت کی سرپرستی میں افغان طالبان کی ثالثی میں ٹی ٹی پی کے ساتھ 2022 میں مذاکرات کا ایک دور چلا تھا

جس میں پاکستان سے کچھ جرگے کابل گئے تھے اور وہاں پر ٹی ٹی پی کے اراکین سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔ان مذاکرات کے حوالے سے اس وقت ٹی ٹی پی نے اپنے ایک بیان میں بتایا تھا کہ مذاکرات کی سربراہی اس وقت پشاور کے کور کمانڈر جنرل فیض حمید کر رہے ہیں اور اس کی تصدیق بعد میں نیشنل سکیورٹی کی پارلیمانی کمیٹی نے بھی کی تھی۔اس وقت کا مذاکراتی عمل بعد میں تعطل کا شکار ہوا اور بعد ازاں ختم بھی ہو گیا جس پر ابھی تک عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ اسی مذاکراتی دور میں ٹی ٹی پی کے کچھ اراکین کو پاکستان واپس آنے کی اجازت دی گئی تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے