آزادی کیوں ضروری ہے؟
1917 میں ایران اور 1943 میں بنگال میں آنے والے قحط محض قدرتی آفات نہیں تھے، بلکہ سامراجی طاقتوں کی پیدا کردہ تباہ کاریاں تھیں۔ یہ قحط جنگ، معاشی استحصال اور ایسی پالیسیوں کا نتیجہ تھے جن میں نوآبادیاتی حکمرانوں نے اپنی طاقت اور مفادات کو انسانی جانوں پر ترجیح دی۔اگرچہ دونوں قحط تباہ کن تھے، لیکن بنگال کا قحط پر کالونیلزم کے محققین کی زیادہ توجہ رہی کیونکہ اس میں استعماریت کی زیادہ واضح ذمہ داری تھی، چرچل کا کردار نمایاں تھا، اس کی بہتر ڈاکیومنٹیشن ہوئی، اس لیے یہ کالونیلزم کے بعد کی ڈیبیٹس میں آج بھی اہمیت رکھتی ہے۔ ایران کے اپنے مورخین نے بھی اس قحط کا کم ذکر کیا۔بہرحال کولونیلزم یا مقبوضہ ملک کے یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ آزادی محض ایک نعرہ نہیں بلکہ عوامی بقا اور سیکیورٹی کی ضمانت ہے۔
ایرانی قحط (1917-1919): سامراجی جنگوں کا شکار ایک قوم
پہلی جنگِ عظیم کے دوران ایران برطانوی، روسی اور عثمانی افواج کے درمیان پھنس گیا ایران کے پاس اپنی مضبوط فوج نہیں گھی، جنوب پر برطانیہ قابض ہوگیا، شمال پر روس اور شمال غرب کے ایک حصے پر عثمانی سلطنت آگے بڑھ آئی۔ غیر ملکی طاقتوں نے ایران کے وسائل لوٹ لیے، خوراک کی قلت پیدا ہوئی، اور مہنگائی نے عام لوگوں کے لیے زندگی مشکل بنا دی۔ اگرچہ قدرتی آفات جیسے کہ خشک سالی اور ٹڈیوں کے حملے بھی شامل تھے، لیکن اصل تباہی بیرونی طاقتوں کی مداخلت سے ہوئی۔ ایک محاذ پر جب برطانوی فوج کو عارضی طور پسپا ہونا پڑا تو لاکھوں ٹن گندم جلا دی کہ کہیں یہ ذخیرہ عثمانی فوج کے ہتّھے نہ چڑ جائے۔ دوسروں کی اس جنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ تقریباً 20 لاکھ دے 35 لاکھ کے قریب ایرانی ہلاک ہوئے—یہ تاریخ کے بدترین قحطوں میں سے ایک تھا، مگر دنیا نے اس پر کوئی توجہ نہ دی اور نہ ڈاکیومنٹیشن کی گئی۔ اور آج بھی اس قحط کا ذکر کم ہی ہوتا ہے۔
بنگال کا قحط (1943): برطانوی سامراج کی بے حسی
برٹش انڈیا میں بنگال کا قحط کسی قدرتی آفت کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ برطانوی حکومت کی جنگی پالیسیوں کی وجہ سے تھا۔ جاپانی افواج کے برما پر قبضے کے بعد چاول کی سپلائی پہلے ہی کم ہو چکی تھی، مگر برطانوی حکومت نے عوام کی مدد کے بجائے اپنی جنگی ضروریات کے لیے خوراک کا ذخیرہ جمع کر لیا۔ چرچل کی حکومت نے “ڈینائل پالیسی” اپنائی یعنی قحط کے وجود سے ہی انکار کیا، جس کے تحت خوراک کے ذخائر اور کشتیاں تباہ کر دی گئیں تاکہ جاپانی فوج کو مدد نہ ملے—نتیجتاً 20 سے 30 لاکھ بے گناہ بنگالی ہلاک ہوئے۔ جب بنگال کے لوگ بھوک سے مر رہے تھے، اُس وقت نسل پرست اور پتھر دل چرچل نے یہ کامنٹ کیا: “انڈینز خرگوشوں کی طرح بچے پیدا کرتے ہیں۔”
پاکستان: سامراجی پراکسی جنگوں کا شکار
پاکستان قحط کا شکار تو نہیں ہوا مگر آزادی کے بعد بیرونی طاقتوں کے لیے استعمال ہوتا رہا، جس کے نتائج نوآبادیاتی قوموں سے کچھ مختلف نہیں تھے۔1980 کی دہائی میں پاکستان نے امریکہ کی حمایت یافتہ خفیہ افغان جہاد میں شرکت کی، جس نے ملک کو سرد جنگ کے دوران میدان جنگ میں بدل دیا۔ اس جنگ کے دوران پاکستان کو 4.2 ارب ڈالر کی امریکی امداد تو ملی، لیکن اصل قیمت عوام نے چکائی—معاشرے میں عسکریت پسندی بڑھی، فرقہ واریت کی مکروہ شکل پیدا ہوئی، انتہا پسندی کا عفریت بوتل سے باہر نکل گیا، منشیات کی اسمگلنگ نے نے صرف نشئیوں کی تعداد میں اضافہ کیا بلکہ اس کی ٹریفکنگ سے نودولتیوں کی ایک نئی کلاس پیدا ہوئی، اور کلاشناکوف سمیت اسلحے کا سیلاب پاکستان میں عدم استحکام کا باعث بنا۔بعد ازاں 9/11 کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر امریکی “وار آن ٹیرر” (War on Terror) میں فرنٹ لائن ریاست کا کردار ادا کیا، لیکن یہ فیصلہ پاکستانی عوام کی مرضی کے بغیر امریکی غلام کے طور پر فوج نے کیا تھا۔ اس کے نتائج تباہ کن ثابت ہوئے:
• 80,000 سے زائد پاکستانیوں کی جانیں گئیں، جن میں عام شہری، فوجی اور قبائلی لوگ شامل تھے۔
• پاکستانی معیشت کو کم از کم 150 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا، اور سرمایہ کاری کے مواقع برباد ہوئے۔
• ملکی خودمختاری متاثر ہوئی، اور امریکی ڈرون حملوں اور فوجی آپریشنز کے باعث لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔
• انتہا پسندی اور فرقہ واریت میں اضافہ ہوا، جس نے سماجی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا۔
آزادی کیوں ضروری ہے؟
یہ قحط اور جنگیں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ غیر ملکی تسلط میں رہنے والی قومیں ہمیشہ استحصال کا شکار رہتی ہیں۔ جب کسی ملک پر بیرونی طاقتوں کا کنٹرول ہوتا ہے، تو اس کے وسائل لوٹ لیے جاتے ہیں، عوام کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے، اور ان کی قسمت پر بیرونی طاقتیں فیصلہ کرتی ہیں۔پاکستان کی امریکہ کی جنگوں میں شمولیت پاکستانی عوام کی خواہش نہیں تھی، بلکہ چند مفاد پرست طبقات اور چند جرنیلوں نے اپنے ملک کو بیرونی طاقتوں کے مفاد میں جھونک دیا۔ حقیقی آزادی صرف بیرونی حکمرانی سے نجات کا نام نہیں، بلکہ اپنی پالیسیوں پر مکمل خودمختاری حاصل کرنا بھی ہے۔ جب تک کسی ملک کی قسمت کا فیصلہ باہر بیٹھے لوگ یا اُن کے ایجنٹ کریں گے، وہ معاشی طور پر کمزور، سیاسی طور پر بے اختیار، اور سماجی طور پر انتشار کا شکار رہے گا۔
ایران، بنگال اور پاکستان کی تاریخ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ آزادی سب سے قیمتی دولت ہے۔ جب تک کوئی قوم اپنی تقدیر کا خود فیصلہ نہیں کرتی، وہ دوسروں کی جنگوں میں ایندھن بنتی رہے گی۔ اصل آزادی وہی ہے جس میں قوم خودمختار ہو، عوام کے فیصلے عوام کریں، اور کسی بیرونی طاقت کو یہ حق نہ ہو کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون زندہ رہے گا، کون مرے گا، اور کس قوم کا مستقبل تباہ کیا جائے گا۔ یہاں یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ ریاست پر فوجی تسلط اتنا ہی خطرناک ہے جتنا کالونیلزم ہے۔ مضبوط اسی وقت ریاست کو مضبوط بنا سکتی ہے جب وہ عوام کی رائے کے تابع ہو۔ اور پاکستان کے آئین میں یہی درج ہے۔