"ہولو کاسٹ” کو بھول جاو "ایلون مسک” کے مشورے پر تنازع کھڑا

28104132b11dc27.jpg

پولینڈ میں آشوٹز کی آزادی کی 80 ویں سالگرہ منانے کے لیے زندہ بچ جانے والے افراد اور عالمی رہنماؤں کے اجتماع کے انعقاد دوران، جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹو فار جرمنی (اے ایف ڈی) نے ہولوکاسٹ کی یاد منانے کی ملکی روایت کو پیچھے دھکیل دیا، اس گروپ امریکی ارب پتی ایلون مسک کی حمایت حاصل ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے عہدیدار ایلون مسک نے اے ایف ڈی کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں ماضی کے جرائم (ہولوکاسٹ) پر بہت زیادہ توجہ دی جا رہی ہے اور ہمیں اس سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے جرمنی میں 23 فروری کو ہونے والے انتخابات کے سلسلے میں امیگریشن مخالف جماعت کے حامیوں سے کہا کہ بچوں کو اپنے دادا، دادی کے گناہوں کا ’مجرم‘ نہیں ہونا چاہیے۔

مسک کا یہ بیان نازیوں کے زیر قبضہ پولینڈ میں قتل عام کے کیمپ کی آزادی کے 80 سال مکمل ہونے اور ہولوکاسٹ کے ’تہذیبی انہدام‘ کے بارے میں چانسلر اولاف شولز کے بیانات کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔آشوٹز حراستی کیمپ، جسے اوسیویشم حراستی کیمپ بھی کہا جاتا ہے، دوسری جنگ عظیم اور ہولوکاسٹ کے دوران مقبوضہ پولینڈ (1939 میں جرمنی میں ضم) میں نازی جرمنی کے ذریعے چلائے جانے والے 40 سے زیادہ حراستی اور قتل عام کے کیمپوں کا ایک کمپلیکس تھا۔جرمن چانسلر اولف شولز نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ ہمارے ملک میں ہر ایک شخص مذہب، والدین یا دادا دادی کی جائے پیدائش سے قطع نظر، اس کی اپنی خاندانی تاریخ سے قطع نظر، (ہولو کاسٹ کی) یہ ذمہ داری قبول کرتا ہے۔مسک کا یہ بیان آشوٹز کی آزادی کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر سامنے آیا ہے، جہاں 1940 سے 1945 کے درمیان 10 لاکھ سے زائد یہودی اور ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک (جن کا ملک یادگاری تقریبات کی میزبانی کر رہا ہے) نے سنیچر کی ریلی میں لگائے گئے نعروں کو فوری طور پر تنقید کا نشانہ بنایا، حالانکہ انہوں نے مسک کا نام نہیں لیا۔پولینڈ کے رہنما نے ایکس پر لکھا کہ اے ایف ڈی کی ریلی کے مرکزی کرداروں سے ’عظیم جرمنی‘ اور ’نازی جرائم کے لیے جرمن جرم کو بھولنے کی ضرورت‘ کے بارے میں ہم نے جو الفاظ سنے وہ بہت زیادہ ’منحوس‘ لگ رہے تھے۔سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کے لیے پولینڈ جانے والے جرمن چانسلر نے ایلون مسک کے پیغام کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’میں اس سے زیادہ اتفاق نہیں کر سکتا، پیارے ڈونلڈ۔

تاریخی بھولنے کی بیماری

نازیوں کی جانب سے یہودیوں کی نسل کشی اور دیگر مظالم کی یاد کئی دہائیوں سے جرمن سیاست اور معاشرے کی مرکزی خصوصیت رہی ہے, کیوں کہ ملک اپنے ماضی کا کفارہ ادا کرنا چاہتا ہے۔اسکول کے بچوں کو ہولوکاسٹ کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے اور جرمن سیاسی رہنما اکثر اعلان کرتے ہیں کہ ’دوبارہ کبھی نہیں‘۔لیکن اے ایف ڈی، جو اب تقریباً 20 فیصد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے، طویل عرصے سے تنازعات کا شکار ہے اور جرمنی سے مطالبہ کرتی رہی ہے کہ وہ دوسری جنگ عظیم کے اپنے جرائم بشمول 60 لاکھ یورپی یہودیوں کی نسل کشی پر توجہ مرکوز کرنا بند کرے۔اس کے سابق رہنماؤں میں سے ایک الیگزینڈر گالینڈ نے ایک بار نازی دور کو جرمنی کی تاریخ میں ’پرندوں کی بچی ہوئی خوراک کا ایک ٹکڑا‘ قرار دیا تھا، گزشتہ سال اے ایف ڈی کے سب سے زیادہ بنیاد پرست رہنماؤں میں سے ایک بورن ہوکی کو ممنوع نازی نعرہ ’ایلس فیور ڈوئچ لینڈ‘ (جرمنی کے لیے سب کچھ) استعمال کرنے پر 2 بار مجرم قرار دیا گیا تھا اور جرمانے کیے گئے تھے۔

اپنی مقبولیت کے باوجود اے ایف ڈی کے 23 فروری کو ہونے والے انتخابات کے بعد حکومت میں شامل ہونے کا امکان نہیں، کیوں کہ مرکزی دھارے کی تمام جماعتوں نے اس کے ساتھ کام کرنے سے انکار کیا ہے، اور بہت سے جرمن، اس پارٹی کے سخت مخالف ہیں۔ہفتے کے روز جرمنی کے شہروں میں ہزاروں افراد نے انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے پرچار کے خلاف ریلیاں نکالیں۔اس کے باوجود جرمن سیاسی اسٹیبلشمنٹ کو اس بات پر تشویش لاحق ہے کہ انتہائی دائیں بازو کے نظریات کو پذیرائی مل رہی ہے۔وزیر ثقافت کلاڈیا روتھ نے کہا کہ یاد رکھنے کی ہماری ثقافت کو بنیادی چیلنجز کا سامنا ہے، غلط معلومات، سازشی نظریات اور نفرت انگیز تقاریر اب اہم سوشل میڈیا پر بغیر کسی حد کے پھیل سکتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے