ڈنکی لگاتے پاکستانیوں کی ہلاکتیں، یہ معاملہ کیسے روکا جائے؟
16 جنوری کو مغربی افریقہ سے کشتی کے ذریعے غیرقانونی طور پر اسپین پہنچنے کی کوشش کرنے والے کم از کم 50 تارکین وطن ہلاک ہو گئے تھے جن میں 44 افراد کا تعلق پاکستان سے تھا۔تقریباً ہر سال ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جن میں غیر قانونی طور پر دوسرے ممالک میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے افراد یا تو پکڑے جاتے ہیں یا پھر کشتی ڈوب جانے کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ ڈیڑھ مہینے میں دوسری بار ’ڈنکی‘ لگا کر یورپ جانے والے افراد کی کشتی حادثے کا شکار ہوئی ہے جس کے نتیجے میں درجنوں گھر اجڑ چکے ہیں۔اس سے قبل 13 دسمبر کو یونان کے جزیرہ کریٹ کے جنوب میں کشتیاں الٹنے کا خوفناک واقعہ پیش آیا تھا جس میں 40 پاکستانی جان کی بازی ہار گئے تھے۔ حکام کے مطابق حادثے میں جان بحق ہونے والے افرد غیر قانونی طور پر ڈنکی لگا کر یونان جانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس دوران کشتیاں حادثہ کا شکار ہو گئیں۔
لوگ کیوں اس طرح کے ایجنٹس کے ہتھے چڑ جاتے ہیں؟ کسی بھی شخص کو ٹریول ایجنٹ سے بات کرتے ہوئے کس طرح کی چیزوں کو مدنظر رکھنا چاہیے تاکہ اسے یہ اندازہ ہو جائے کہ وہ ٹریول ایجنٹ اس کو قانونی تقاضوں کے مطابق گائیڈ کر رہا ہے یا پھر نہیں؟ اس کے علاوہ جتنے پیسے غیر قانونی طور پر ایجنٹس کو دیے جارہے ہیں ان میں وہ لوگ پاکستان میں ہی کاروبار نہیں کرسکتے؟ ان تمام سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے لیے بصیر میڈیا نے کچھ ایکسپرٹس سے بات کی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی اسمگلنگ مختلف اقسام کی ہوتی ہیں اور یوں غیر قانونی طریقے سے لوگوں کو سرحد پار کروانا بھی اسی جرم میں آتا ہے۔ جن افراد کو بہلا پھسلا کر باہر لے جایا جاتا ہے ان میں سے کچھ کو تو بیچ بھی دیا جاتا ہے۔غیر قانونی طور پر گئے ایسے لوگوں میں ایسے بہت ہی کم ہوتے ہیں جو محفوظ طریقے سے بیرون ملک پہنچ جاتے ہیں۔
ماہرین نے اس طرح غیر قانونی طور پر باہر جانے کا خطرہ اٹھانے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی معاشی صورتحال اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ پاکستانی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان آن لائن کیب سروسز یا کوئی بھی ایسی نوکری کرنے پر مجبور ہیں جو ان کے تعلیمی معیار کے بالکل برعکس ہے اور اگر ان کو تعلیمی معیار کے مطابق نوکری مل بھی جائے تو ان کی تنخواہیں 20 سے 25 ہزار روپے سے شروع ہوتی ہیں اس لیے پاکستان کا نوجوان طبقہ مایوس کن ہو چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پھر یہ نوجوان کسی بھی صورت یورپ جانے کو ترجیح دیتے ہیں اور جو قانونی طریقے سے نہیں جاپاتے وہ ڈنکی لگا کر جانے کی کوشش کرتے ہیں اور پاکستانی حکومت ایسا کوئی طریقہ کار بنانے میں ناکام ہے جس کے ذریعے نوجوان قانونی طور پر باہر جا سکیں یا ملک میں ہی نوکریاں حاصل کرسکیں۔
گجرات سمیت پاکستان کے کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں پر سب سے زیادہ یہ گینگز پائے جاتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے پولیس ان کے ساتھ شامل ہوتی ہے۔ وہ ایجنٹ گاؤں میں لوگوں کے باقائدہ مائنڈ واش کرتے ہیں اور ان کو اس طرف راغب کرتے ہیں۔بیرون ممالک بیٹھ کر سوشل میڈیا پر ویڈیوز ڈالنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد انہی اسمگلرز کی ہوتی ہے جو ویڈیوز میں کہتے ہیں کہ آپ اگر یورپ یا کسی بھی ملک آنا چاہتے ہیں تو ہم سے رابطہ کریں۔ یہاں پر ایک سہانی زندگی ہے اور اتنے پیسے آسانی سے کمائے جا سکتے ہیں کہ زندگی جنت بن جائے۔ایسے لوگ سوشل میڈیا پر لوگوں کو اکساتے ہیں اور ان کے کارندے یہاں موجود ہوتے ہیں اور یوں جب یہاں لوگ ان ایجنٹس سے ملتے ہیں تو انہیں ساری کہانی سنا کر اپنے جھانسے میں لے آتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگوں کا مزید مائنڈ واش کرنے کے لیے بیرون ملک ایجنٹس کو پاکستان بلایا جاتا ہے اور انہیں سہی سوٹ بوٹ، سونا وغیرہ پہنا کر لایا جاتا ہے جس سے گاؤں کے لوگ حیران پریشان ہو جاتے ہیں اور بوڑھی مائیں دیکھ کر حسرت کرتی ہیں کہ ہمارا بیٹا بھی باہر جائے۔ بوڑھے ماں باپ یا نوجوان خود ان کی منتیں کرتے ہیں جس کے بعد یہ ایجنٹس کہتے ہیں کہ ہم فلاں بندے کے ذریعے گئے تھے آپ ان سے رابطہ کر لیں۔ یہ گینگز اس طرح سے وارداتیں ڈالتے ہیں کہ لوگ گمان بھی نہیں کر پا رہے ہوتے کہ ان کے ساتھ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ پولیس کی مدد اور ان کے حصے کے بغیر یہ گھناؤنا کاروبار ممکن نہیں ہے۔اگرچہ پکڑے جانے کے بعد ان جرائم پیشہ افراد کو سزائیں ہو بھی جاتی ہیں تو یہ کسی طرح ضمانت لے لیتے ہیں۔ ایسے ملزم متعلقہ بار سیکریٹری یا صدر کو اپنا وکیل مقرر کرلیتے ہیں تاکہ ان کے عہدوں کی بنیاد پر ضمانت آسانی سے مل جائے۔
پاکستان میں تمام قوانین موجود ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں ایک ایسا مضبوط ادارہ ہونا چاہیے جو سرکاری افسروں کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکے۔اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک ٹریول ایجنٹ نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈنکی کے حوالے سے گزشتہ چند برسوں میں صورتحال بہت زیادہ تبدیل ہوئی ہے جو دنیا کا نقشہ تبدیل ہوا ہے اس کے لحاظ سے جو انسانی اسمگلنگ کے مافیاز نئی جگہوں پر سرگرم ہوئے ہیں جن میں سب سے اہم ملک لیبیا ہے جہاں خانہ جنگی کے بعد سے اب تک حکومت کا پوری طرح سے کنٹرول قائم نہیں ہوسکا ہے۔صرف پاکستان سے ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک کے لوگ بھی سب سے پہلے لیبیا میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ وہاں کا ویزا حاصل کرنا بہت ہی آسان ہے کیوں کہ وہاں ڈالرز کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ابھی جو لیبیا کا واقعہ دیکھا اس میں لیبیا سے لا کر کشتی کو سمندر کے بیچ کھڑا کر دیا گیا تھا۔ شدید سردی اور تشدد سے بہت سے پاکستانی ہلاک ہوئے۔ باقیوں نے تاوان دے کر اپنی جان چھڑوائی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے قبل لوگ بلوچستان کے ذریعے ڈنکی لگایا کرتے تھے جہاں لندن روڈ کہلائی جانے والی ایک سڑک بغیر ویزا پار کرلی جاتی ہے۔ مگر اب ایران، افغانستان اور پاکستان کے بارڈر پر سختی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اس لیے اب پاکستان ایران یا افغانستان کے ذریعے ڈنکی نہیں لگائی جاسکتی۔
اب صورتحال بدل رہی ہے اور یہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ پاکستانی شہری ہوائی جہاز کے ذریعے لیبیا یا پھر ترکی جاتے ہیں جہاں انسانی اسمگلرز موجود ہوتے ہیں جو ان کو کشتیوں میں بٹھا کر آگے لے کر جاتے ہیں۔ وہ کشتیاں انتہائی ناقص، ناکارہ اور زنگ آلود ہوتی ہیں۔ اگر اس میں 10 لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے تو اس میں 50 لوگ بٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان میں نہ کھانے پینے کا کوئی نظام ہوتا ہے اور نہ ہی صفائی ستھرائی کا کوئی نظام ہوتا ہے۔ آدھے لوگ اس سفر کے دوران ہی مرنے والی حالت کے قریب پہنچ جاتے ہیں اور اگر کوئی خوش قسمتی سے اپنی منزل تک پہنچ بھی جاتا ہے تو اکثر یورپ کے سخت قوانین کے تحت ان کشتیوں کو واپس کر دیا جاتا ہے۔ اور اکثر اوقات ان کو مہاجر کیمپوں میں ٹھہرا دیا جاتا ہے۔
معاشی ماہر راجہ کامران نے اس حوالے سے بتایا کہ پنجاب کا ایک مخصوص علاقہ ہے جہاں کے نوجوان صرف یورپ جانے کے خواب دیکھتے ہیں حالانکہ وہ علاقے بہت ہی زرخیز ہیں اور ان کی وہاں زمینیں ہوتی ہیں لیکن وہ اتنا پیسا لگا کر یورپ جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن کی اچھی قسمت ہوتی ہے کہ وہ تکالیف برداشت کرنے کے بعد بالآخر یورپ پہنچ ہی جاتے ہیں اور اس میں بھی تاوان اور دیگر چیزیں دینے کے بعد کم از کم ایک کروڑ روپیہ لگ جاتا ہے۔ 15 سے 20 لاکھ روپے پاکستان میں دیتے ہیں اور ہر سطح پر پھر جس اسمگلر کے ہاتھ چڑھتے ہیں ان کو بھی پیسہ دینا پڑتا ہے۔
راجہ کامران نے کہا کہ سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں میں مایوسی پھیلائی گئی ہے جس کی وجہ سے اب وہ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر باہر جانا چاہتے ہیں حالاں کہ پاکستان کی معیشت بہتر ہو رہی ہے اور یہاں بہت سے کاروبار ہو سکتے ہیں۔ زرعی علاقوں کے نوجوان جو ڈنکی مار کر جاتے ہیں وہ اگر زراعت پر توجہ دیں تو اور انگور، زیتون اور دیگر چیزوں کی کاشت کریں تو پاکستان میں اچھی سے اچھی زندگی کزار سکتے ہیں حالاں کہ باہر جا کر بھی عام سی ہی نوکریاں کرتے ہیں لیکن لوگوں کو دکھانا ہوتا ہے کہ ہم یورپ میں ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت اداروں کو سوشل میڈیا پر معیشت کی بحالی کے حوالے سے مہمات کی شروعات کرنی چاہییں تاکہ نوجوانوں کے اندر پیدا کی گئی مایوسی کو ختم کیا جا سکے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے سب سے زیادہ انسانی اسمگلنگ کی جا رہی ہے۔
حکومت کو ٹارگٹڈ علاقوں میں کونسلز کے زریعے وہاں پر ڈنکی کے کاروبار کو بند کروانا چاہیے اور صرف انسانی اسمگلرز کو گرفتار نہ کیا جائے بلکہ والدین کی بھی سرزنش کی جائے جو اپنے بچوں کو زمینیں بیچ کر اور ادھار لے کر اس خطرناک عمل کے لیے پیسے دے رہے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں راجہ کامران کا کہنا تھا کہ یہ بات سچ ہے کہ یورپ میں نوجوانوں کی کمی ہے اس پر حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان ممالک کی مختلف فرمز کے ساتھ لیبر فراہم کرنے کے معاہدے کر لے یا پھر وہ نجی شعبے کو اس بات کی اجازت دے کہ وہ ان ممالک میں لیبر فراہم کرنے کے معاہدے کر لیں اور ہنر مند افراد کو وہاں لے جا کر ملازمیتیں دلوائیں۔
ٹریول ایجنٹ کا انتخاب کرتے ہوئے کن چیزوں کو تصدیق کرنی بہتر ہے؟
ٹریول ایجنٹ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ جب کوئی شخص ایجنٹ سے رابطہ کرے تو سب سے پہلے وہ اس کا لائسنس ویری فائی کرے۔ اگر وہ اوورسیز ورک پرمٹ یا اس سے منسلک جو بھی سروسز دے رہا ہوتا ہے تو پاکستانی حکومت اس کو اوورسیز کا لائسنس دیتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر ٹکٹنگ کے حوالے سے آپ کسی ایجنٹ سے رابطہ کر رہے ہیں تو اس صورت میں انٹرنیشنل ائیر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن ( آئی اے ٹی اے) یا پھر ڈپارٹمنٹ آف ٹورسٹ سروسز یا ڈیفنس ٹریول سسٹم (ڈی ٹی ایس) کا لائسنس لازمی اس کے پاس ہونا چاہیے۔انہوں نے بتایا کہ اگر کسی کے پاس یہ لائسنسز ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ لیگل ٹریول ایجنٹ ہے۔