چینی اسٹارٹ اپ ’ڈیپ سیک‘ پر اچانک مقبولیت کے بعد سائبر حملہ

deepseek.jpg

چینی اسٹارٹ اپ ڈیپ سیک نے کمپنی کے اے آئی اسسٹنٹ کی اچانک مقبولیت کے بعد ہونے والے سائبر حملوں کے پیش نظر رجسٹریشن کو عارضی طور پر محدود کرنے کا اعلان کردیا۔رپورٹ کے مطابق اس سے قبل اسٹارٹ اپ کو اس کی ویب سائٹ پر بندش کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ اس کا اے آئی اسسٹنٹ امریکا میں ایپل کے ایپ اسٹور پر دستیاب ٹاپ ریٹڈ مفت ایپلی کیشن بن گیا تھا۔کمپنی نے اپنے اسٹیٹس پیج کے مطابق اپنے ایپلی کیشن پروگرامنگ انٹرفیس اور صارفین کو ویب سائٹ پر لاگ ان میں درپیش مسائل کو حل کیا۔پیر کو ہونے والی بندش کمپنی کی تقریباً 90 دنوں میں سب سے طویل بندش تھی اور اس کی آسمان کو چھوتی مقبولیت کے ساتھ میل کھاتی ہے۔

ڈیپ سیک نے گزشتہ ہفتے ایک مفت اسسٹنٹ لانچ کیا تھا جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ موجودہ کمپنیوں کے ماڈلز کی لاگت کے ایک حصے سے کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے، جو ممکنہ طور پر مصنوعی ذہانت کے لیے درکار سرمایہ کاری کی سطح میں ایک اہم موڑ ہے۔ایپ ڈیٹا ریسرچ فرم سینسر ٹاور کے مطابق ڈیپ سیک-وی 3 ماڈل، جس کے تخلیق کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ’اوپن سورس ماڈلز میں سرفہرست ہے اور عالمی سطح پر جدید ترین کلوزڈ سورس ماڈلز کا مقابلہ کرتا ہے‘،10 جنوری کو جاری ہونے کے بعد سے مصنوعی ذہانت کی حامل اس ایپلی کیشن کی مقبولیت میں امریکی صارفین میں اضافہ ہوا ہے۔یہ سنگ میل اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ کس طرح ڈیپ سیک نے سلیکون ویلی پر گہرا اثر ڈالا ہے ، جس نے مصنوعی ذہانت میں امریکی بالادستی اور چین کی جدید چپ اور مصنوعی ذہانت کی صلاحیتوں کو نشانہ بنانے والے واشنگٹن کے برآمدی کنٹرول کے اثرات کے بارے میں وسیع پیمانے پر پائے جانے والے خیالات کو تقویت ملی ہے۔

ٹیکنالوجی سے مالا مال نیسڈیک میں پیر کو اس وقت مندی دیکھی گئی جب وال اسٹریٹ اور دیگر عالمی اسٹاک مارکیٹوں کے تاجروں نے کم لاگت والے چینی جنریٹیو مصنوعی ذہانت کے منصوبے کے ابھرنے پر ردعمل کا اظہار کیا جس نے بظاہر امریکی کمپنیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔چین کے مشرقی شہر ہانگژو میں قائم ایک اسٹارٹ اپ کی جانب سے تیار کردہ ڈیپ سیک نے نیویڈیا جیسے مصنوعی ذہانت کے پیس سیٹرز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے، جس کے حصص کی قیمت میں 11 فیصد سے زائد کی کمی واقع ہوئی ہے، جس سے مارکیٹ ویلیو میں تقریباً 400 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ٹیکنالوجی سے مالا مال نیسڈیک بڑے انڈیکس میں 2.7 فیصد مندی کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ مصنوعی ذہانت کے بڑے کھلاڑیوں میٹا، مائیکروسافٹ اور گوگل کی پیرنٹ کمپنی الفابیٹ کے حصص میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔

ڈیپ سیک کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے اے آئی ماڈل کی تیاری پر صرف 56 لاکھ ڈالر خرچ کیے ہیں، جوکہ مصنوعی ذہانت پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والی امریکی کمپنوں کے مقابلے میں انتہائی معمولی ہے۔ایکس ٹی بی کی ریسرچ ڈائریکٹر کیتھلین بروکس کا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے امریکی ٹیکنالوجی بالادستی کو چیلنج کیا جا رہا ہے، اب توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ آیا چین اسے امریکا کے مقابلے میں بہتر، تیز اور زیادہ مؤثر طریقے سے کر سکتا ہے اور کیا وہ مصنوعی ذہانت کی دوڑ جیت سکتا ہے۔میٹا اور مائیکروسافٹ ان ٹیکنالوجی کمپنیوں میں شامل ہیں جو رواں ہفتے کے اواخر میں اپنی آمدنی کا اعلان کریں گے اور چینی کمپنی کے ابھرنے پر تبصرہ کرنے کا موقع فراہم کریں گے، جسے وینچر کیپیٹلسٹ مارک اینڈریسن نے ’اسپوٹنک مومنٹ‘ سے تشبیہ دی تھی جب سوویت یونین نے 1957 میں مدار میں سیٹلائٹ لانچ کرکے واشنگٹن کو حیران کردیا تھا۔ایف سی اے کے سینئر مارکیٹ تجزیہ کار ڈیوڈ موریسن کے ایک نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ڈیپ سیک کا اے آئی اسسٹنٹ اب ایپل کے یو ایس ایپ اسٹور پر ٹاپ ریٹڈ مفت ایپلی کیشن ہے‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے