"انڈیا” سال 2024 میں فرقہ وارانہ فسادات میں 84 فیصد کا اضافہ

Communal-hate-Illustration-Pariplab-The-Wire.jpg

گزشتہ سال 2024 میں ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات میں 84 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ، جن میں سب سے بڑا نشانہ مسلم آبادی تھی۔سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرازم (سی ایس ایس ایس) کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ سال فرقہ وارانہ فسادات کے 59 واقعات ریکارڈ کیے گئے تھے، جو 2023 میں ہوئے 23 فسادات سے کافی زیادہ ہے۔ان واقعات میں کل 13 اموات ہوئیں، جن میں 10 مسلمان اور 3 ہندو مارے گئے۔ ان 59 فسادات میں سب سے زیادہ 12 فسادات مہاراشٹر میں ہوئے۔ اس کے بعد اتر پردیش اور بہار میں سات -سات فسادات ہوئے۔رپورٹ میں کہا گیا،’فرقہ وارانہ فسادات کی تعداد میں یہ اضافہ حکومت کے اس بیانیے کی تردید کرتا ہے کہ ہندوستان فرقہ وارانہ فسادات سے آزاد ہے کیونکہ یہاں کوئی فرقہ وارانہ کشیدگی نہیں ہے اور حکومت نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکن عرفان انجینئر، نہا دابھاڑے اور متھلا راوت کی تیار کردہ سی ایس ایس ایس کی رپورٹ ملک کے پانچ مؤقراخبارات – دی ہندو، ٹائمز آف انڈیا، دی انڈین ایکسپریس، صحافت اور دی انقلاب کے ممبئی ایڈیشن کی خبروں پر مبنی ہے۔تحقیق کے لیے سرکاری اعداد و شمار کے بجائے اخبارات کا انتخاب کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے سی ایس ایس ایس کی ٹیم نے کہا، ‘وزارت داخلہ اور نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کا جامع ریکارڈ رکھتے ہیں، لیکن انھوں نے اپنے ڈیٹا کو باقاعدگی سے شائع کرنا بند کر دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، یہ واقعات بڑے پیمانے پر مذہبی تہواروں اور جلوسوں کے دوران شروع ہوئے، جن میں 59 میں سے 26 واقعات ہوئے۔ یہ بتاتا ہے کہ کس طرح مذہبی تہواروں کو فرقہ وارانہ کشیدگی اور سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان واقعات میں جنوری میں ایودھیا میں رام مندر کےپران پرتشٹھا کی تقریب کے دوران چار فسادات، فروری میں سرسوتی پوجا مورتی وسرجن کے دوران سات فسادات، گنیش اتسو کے دوران چار فسادات اور بقرعید کے دوران دو فسادات شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق، متنازعہ عبادت گاہوں کے معاملے پر چھ فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، جو بنیادی طور پر ریاست اور دائیں بازو کے گروہوں کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر مبنی تھے۔ اس میں مساجد اور درگاہوں کو غیر قانونی قرار دینا اور ان میں ہندو مندروں کی تلاش بھی شامل ہے۔ وہیں عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی وجہ سے پانچ فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کے 59 میں سے 49 واقعات ان ریاستوں میں پیش آئے جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) یا تواپنےدم پر یا دوسری جماعتوں کے ساتھ اتحاد میں حکومت کر رہی ہے۔ دریں اثنا، اس طرح کے سات واقعات کانگریس مقتدرہ ریاستوں میں اور تین مغربی بنگال میں ہوئے، جہاں ترنمول کانگریس کی حکومت ہے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دیہی علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات میں اضافہ ہوا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ایک دہائی قبل تک فرقہ وارانہ فسادات زیادہ تر شہری علاقوں میں ہوتے تھے۔ تاہم، گزشتہ چند سالوں میں جیسے کہ 2024 میں فرقہ وارانہ فسادات گاؤں اور قصبوں تک پھیل گئے ہیں۔

ہیٹ اسپیچ اور ماب لنچنگ

رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ فسادات کے علاوہ 2024 میں ماب لنچنگ کے 13 واقعات ریکارڈ کیے گئے، جس کے نتیجے میں 11 افراد ہلاک ہوئے۔ اس میں ایک ہندو، ایک عیسائی اور نو مسلمان مارے گئے۔اس حوالے سے سی ایس ایس ایس نے کہا، ‘اگرچہ یہ 2023 میں ریکارڈ کیے گئے ماب لنچنگ کے 21 واقعات میں کمی کی نشاندہی کرتا ہے، لیکن اس طرح کے حملوں کا جاری رہنا باعث تشویش ہے۔’ان میں سے سات واقعات گئو رکشکوں یا گئو کشی کے الزامات سے متعلق تھے، جبکہ دیگر معاملات ‘لو جہاد’ کے الزامات اور مسلمانوں کو ان کی مذہبی شناخت کے لیے نشانہ بنانے کے حملوں سے متعلق تھے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2024 میں فرقہ وارانہ فسادات کی تعداد میں اضافے کی وجہ جزوی طور پر اپریل/مئی میں ہونے والے عام انتخابات کے ساتھ ساتھ مہاراشٹرا، ہریانہ اور جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات کو بھی قرار دیا جا سکتا ہے، جہاں ‘فرقہ وارانہ اور ‘نفرت انگیز تقاریر’ کی گئی تھیں اور مذہبی خطوط پر برادریوں کو پولرائز کرنے کے لیے ایسی تقاریر کا استعمال کیا گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے