آٹھ سال بعد ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ کابل

171647393.jpg

ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی وفد کے ہمراہ آج کابل پہنچ گئے۔ کابل ائیرپورٹ پر وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی اور اعلی سیاسی شخصیات نے استقبال کیا۔ کابل میں ایرانی سفارت خانے کے مطابق اس دورے کا مقصد دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان سیاسی، اقتصادی اور سفارتی تعلقات کو مزید فروغ دینا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کابل صدارتی محل ارگ میں افغانستان کے وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند سے ملاقات کی۔اس موقع پر ملا محمد حسن اخوند نے ایرانی وفد کو خوش آمدید کہا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے اعلیٰ سطحی وفود کے تبادلے پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان اور ایران کے درمیان برادرانہ اور دوستانہ تعلقات تاریخی اہمیت کے حامل ہیں اور ان تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے دوطرفہ تعاون اور مسائل کے پرامن حل کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ملاقات میں افغان مہاجرین کی حالتِ زار پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی۔ ملا محمد حسن اخوند نے ایران سے درخواست کی کہ افغان مہاجرین کے ساتھ اسلامی اور انسانی اصولوں کے تحت برتاؤ کیا جائے اور ان کی تدریجی واپسی کے لیے تعاون فراہم کیا جائے۔ انہوں نے ایران میں مہاجرین کی گرفتاری اور ان کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مہاجرین کے مسائل کے حل کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے۔

وزیر اعظم نے پانی کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان ایران کے ساتھ خیر سگالی کے جذبے سے پیش آتا ہے اور پانی کی تقسیم کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان ہلمند دریا کے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ افغانستان کبھی بھی ایران کو نقصان پہنچانے کی نیت نہیں رکھتا اور اس مسئلے کو تعاون اور تفہیم کے ذریعے حل کیا جائے گا۔ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر سید عباس عراقچی نے افغانستان میں امن و امان کی بحالی پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ ایران کا امن و استحکام افغانستان کے امن و استحکام سے جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امارت اسلامیہ افغانستان کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ایران تیار ہے۔انہوں نے افغان مہاجرین کی باعزت واپسی اور پانی کے مسئلے کو دونوں ممالک کے درمیان تعاون کا ذریعہ قرار دیا اور کہا کہ ایران افغان مہاجرین کے مسائل کے حل کے لیے اقدامات کرے گا۔

افغان ہم منصب سے ملاقات:

ایرانی وزیر خارجہ نے دفتر خارجہ میں افغان ہم منصب مولوی امیر خان متقی سے بھی ملاقات کی۔ افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے ایرانی وزیر خارجہ کو کابل آمد پر خوش آمدید کہا اور امید ظاہر کی کہ یہ دورہ دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید بہتری لائے گا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان اور ایران کے درمیان مشترکہ مذہبی، ثقافتی اور جغرافیائی روابط کو مدنظر رکھتے ہوئے سفارتی تعلقات کو مزید مستحکم کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے ایران کے اعلیٰ سطحی وفد کو افغانستان میں موجودہ سیکیورٹی کی صورت حال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ طویل جنگوں کے بعد افغانستان میں اب امن و امان قائم ہوچکا ہے، جو نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے لیے فائدہ مند ہے۔ مولوی امیر خان متقی نے ایران میں مقیم افغان مہاجرین کے مسائل پر بھی بات کی۔

انہوں نے ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ مہاجرین کے لیے سہولیات میں بہتری لانے کے لیے تعاون کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی امارت اسلامیہ کی اولین ترجیح ہے، لیکن اس عمل میں وقت درکار ہوگا، جس کے لیے ایران سمیت دیگر پڑوسی ممالک کا تعاون ضروری ہے۔پانی کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے مولوی امیر خان متقی نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پورا خطہ خشک سالی کا شکار ہے اور افغانستان بھی اس سے متاثر ہے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ افغانستان ہلمند، نیمروز اور سیستان و بلوچستان کے عوام کو یکساں نظر سے دیکھتا ہے اور دونوں جانب کے عوام کو پانی کی فراہمی کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔

ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر سید عباس عراقچی نے افغانستان میں امن و استحکام کو ایران کے استحکام کے لیے لازمی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ امارت اسلامیہ افغانستان نے گذشتہ تین سالوں میں قابلِ ذکر ترقی کی ہے اور کابل کا یہ دورہ دونوں ممالک کے تعلقات میں نئے راستے کھولے گا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے افغانستان کی جانب سے منشیات کے خلاف اقدامات کو سراہا اور تجویز دی کہ دونوں ممالک کے متعلقہ ادارے اس حوالے سے تجربات کا تبادلہ کریں۔ ڈاکٹر عراقچی نے پانی کے مسئلے کو انسانی مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ اس معاملے کو باہمی تعاون کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے تجویز دی کہ دونوں ممالک کے تکنیکی ماہرین کو اس مسئلے پر مل کر کام کرنا چاہیے۔ ملاقات کے اختتام پر دونوں فریقین نے زیرِ بحث مسائل کے حل کے لیے تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اعلیٰ سطحی وفود کے تبادلوں کو جاری رکھا جائے تاکہ دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنایا جا سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے