عوامی جمہوریہ کانگو: معدنی وسائل کی دولت عدم استحکام کا سبب کیوں؟

181224251f67c78.jpg

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مشرقی کانگو میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور عدم استحکام پر اجلاس اب 26 جنوری کو ہو رہا ہے، جو پہلے 27 جنوری کو ہونے والا تھا۔ سلامتی کونسل کے ایک ذریعے نے بتایا کہ کانگو میں واقعات کی حالیہ پیش رفت کی وجہ سے اجلاس کی تاریخ کو ایک دن پہلے کر دیا گیا ہے۔ یہ فوری ردعمل روانڈا کے حمایت یافتہ ایم 23 باغی گروپ کے دوبارہ اُبھرنے کے باعث پیدا ہونے والے بحران کی شدت کو ظاہر کرتا ہے، جو اس خطے میں دہائیوں سے جاری نوآبادیاتی استحصال کی ایک واضح مثال ہے۔

جمہوریہ کانگو (ڈی آر سی) طویل عرصے سے سامراجی اور بین الاقوامی سرمایہ دارانہ نظام کی لالچی پالیسیوں کا شکار رہا ہے، جہاں اس کی وسیع قدرتی دولت کو غیر ملکی طاقتوں اور کارپوریشنز نے لوٹا ہے۔ 1960 میں بیلجیئم کے ظالمانہ نوآبادیاتی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے بعد، کانگو کے قومی رہنما پیٹریس لوممبا سامراج مخالف مزاحمت کی علامت بن کر اُبھرے۔ 1961 میں سی آئی اے اور بیلجیئم کی سازش کے ذریعے اُنھیں قتل کروایا گیا، اس کے بعد سے کانگو پھر سے عدم استحکام اور مغرب کی ایجنٹ حکومتوں کے تحت اُن کی دوبارہ سے کالونی بن گیا اور تب سے مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے۔

آج، ڈی آر سی کے 24 ٹریلین ڈالر کی مالیت کے معدنی وسائل پر سامراج کی نظریں لگی ہوئی ہیں جو تنازعات کو ہوا دے کر گہرا کر رہی ہیں۔ معدنیات سے مالا مال مشرقی صوبے، خاص طور پر شمالی اور جنوبی کیوو، حالیہ بحران کے مرکز ہیں۔ کولٹان، کسٹریٹائٹ، سونا، اور کوبالٹ — جو الیکٹرانکس اور گرین ٹیکنالوجیز کے لیے ضروری معدنیات ہیں — ان معدنیات میں شامل ہیں جن کے لیے مسلح گروہ، خاص کر روانڈا جیسی علاقائی طاقتوں کی حمایت کے ساتھ، کانگو کی فوج سے لڑائی لڑ رہے ہیں۔ یہ پرتشدد مقابلہ ان بین الاقوامی کارپوریشنز (ایم این سیز) کے مفادات کو پورا کرتا ہے جو عدم استحکام سے فائدہ اٹھاتی ہیں اور عالمی منڈیوں کو سستی معدنیات کی مسلسل فراہمی یقینی بناتی ہیں۔

رپورٹس میں ایم این سیز (MNCs)، بشمول ایپل (Apple)، مائیکروسافٹ (Microsoft)، ڈیل (Dell)، اور ٹیسلا (Tesla)، پر الزام ہے کہ وہ مشرقی ڈی آر سی میں مسلح گروہوں سے جڑے سپلائرز سے کانگو کی معدنیات خرید رہی ہیں۔ دسمبر 2019 میں، ان کمپنیوں پر کوبالٹ مائننگ میں بچوں کی مزدوری کے استعمال میں معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے مقدمہ دائر کیا گیا۔

فنانشل ٹائمز کی 20 جنوری کی رپورٹ کے مطابق، حال ہی میں، ڈی آر سی حکومت نے بیلجیئم اور فرانس میں ایپل (Apple) کی ذیلی کمپنیوں کے خلاف مجرمانہ شکایات دائر کیں، ان پر باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں سے ٹن، ٹینٹلم، ٹنگسٹن، اور سونے جیسے “معدنیات” خریدنے کا الزام لگایا۔ اگرچہ ایپل ان الزامات کو مسترد کرتا ہے اور ڈی آر سی سے سورسنگ سے گریز کرنے کی ہدایات جاری کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن ایسے اقدامات مغربی کارپوریشنز کے تشدد اور استحصال کو جاری رکھنے کی پالیسیوں میں ملوث ہونے کو ظاہر کرتے ہیں۔
یہ فیکٹرز اور ڈائنامِکس سرمایہ داری نظام کی اس استحصالی پالیسی سے لڑنے کے لیے بائیں بازو کی مزاحمت کی ضرورت پر زور دیتا ہے، جہاں سامراجی طاقتوں کے منافع کے بے رحم حصول نے وسائل سے مالا مال مگر غریب قوموں کو غلام بنانے کی حرص کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ ڈی آر سی کی موجودہ بدامنی، سامراجی استحصال اور علاقائی پراکسی جنگوں سے تقویت پاتی ہے، اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ کس طرح سرمایہ دارانہ لالچ تشدد اور غربت کے منہوس دائروں کو برقرار رکھ رہا ہے۔

جب تک نظام کے بنیادی ڈھانچے کی خرابیوں کا سدباب نہیں کیا جاتا،کانگو جیسے ممالک کی وسیع قدرتی دولت اس کے عوام کے لیے نعمت بننے کے بجائے لعنت بنی رہے گی۔ معدنی وسائل سے مالا مال ممالک اکثر ملٹی نیشنل کمپنیوں (MNCs) کی لالچ کا شکار ہوتے ہیں جو ان کی دولت کا استحصال کرتی ہیں۔ یہ کمپنیاں منافع کو انسانی حقوق اور طویل مدتی ترقی پر ترجیح دیتی ہیں، جس سے عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ تیل، ہیروں اور کوبالٹ جیسے قیمتی وسائل کا استحصال تنازعات، بدعنوانی اور غربت کو جنم دیتا ہے، جس سے مقامی آبادی غربت اور تشدد کے منہوس چکر میں پھنسی رہ جاتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے