گلگت بلتستان میں سرکاری ملازمین کا احتجاج، 10 فروری کی ڈیڈ لائن

protest-111.jpg

گلگت بلتستان کے سرکاری ملازمین نے ملک کے دیگر حصوں کی طرح اپنے حقوق کے لیے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ملازمین کا کہنا ہے کہ جب تک ان کی پنشن اور دیگر مراعات کے حوالے سے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے، احتجاج جاری رہے گا۔سرکاری ملازمین نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کو 10 فروری تک کا وقت دیا ہے۔ اس حوالے سے لائن ڈیپارٹمنٹ کے نائب صدر جمشید کا کہنا تھا کہ حکومت ملازمین کے ساتھ ناانصافی کر رہی ہے۔

مستحقین کو دستیاب سہولیات کا خاتمہ

انہوں نے بتایا کہ 2020 میں سرکاری ملازمین کی مراعات اور پنشن میں 25 فیصد رہ گئی ہے۔ مزید یہ کہ بیوہ، یتیم، اور دیگر مستحقین کے لیے فراہم کی جانے والی سہولیات ختم کر دی گئی ہیں، اور پنشن کی کٹوتی بھی کی گئی ہے۔

احتجاج میں مزید شدت لائی جائے گی

جمشید نے مزید کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد 365 دن کی تنخواہ دی جاتی تھی، جو اب ختم کر دی گئی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر 10 فروری تک ان کے مسائل حل نہ کیے گئے تو احتجاج میں مزید شدت لائی جائے گی۔

سرکاری نظام کو نجکاری کی طرف لے جایا جا رہا ہے

مظاہرین کا کہنا ہے کہ حکومت وفاق کی ہدایات کے تحت فیصلے کر رہی ہے اور مقامی حکومت بے بس نظر آتی ہے۔ آئی ایم ایف کے دباؤ پر سرکاری نظام کو نجکاری کی طرف لے جایا جا رہا ہے، جس کے تحت 35 سال سے کم اور 50 سال سے زیادہ عمر کے ملازمین کو فارغ کرنے کی تجاویز دی جا رہی ہیں۔

ہر کسی کو اپنی آواز بلند کرنی چاہیے

سرکاری ملازمہ مبارکہ گل نے کہا کہ یہ مسئلہ امیر اور غریب سب کے لیے برابر ہے، اور ہر کسی کو اپنی آواز بلند کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ حکومت سرکاری ملازمین کے مراعات اور سہولیات کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو ناقابل قبول ہے۔سرکاری ملازمین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سنجیدگی سے ان کے مسائل کا حل نکالے، ورنہ احتجاج میں مزید شدت آ سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے