پناہ گزینوں پر پابندی، امریکا کیلئے خدمات انجام دینے والے افغان نژاد امریکی خوف زدہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پناہ گزینوں کے امریکا میں داخلے معطل کرنے کے انتظامی حکم نامے نے افغان نژاد امریکیوں کو خوفزدہ کر دیا۔ رپورٹ کے مطابق اس نئے حکم نامے سے امریکا میں داخلے کے اہل ایک ہزار 600 سے زائد افغانوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔وکلا کا کہنا ہے کہ امریکا میں آباد ہونے کے اہل 1600 سے زائد افراد افغانستان اور پاکستان سے فرار ہونے کے منتظر ہیں۔پناہ گزینوں کی دوبارہ آبادکاری کے لیے کام کرنے والے کارکن اور ایک امریکی عہدیدار نے بتایا کہ اس فیصلے سے ممکنہ افغان پناہ گزینوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے، جن میں سیکڑوں فعال سروس اہلکاروں کے اہل خانہ اور بچے بھی شامل ہیں، جو پہلے سے امریکا میں موجود اہل خانہ سے ملنے کے منتظر ہیں۔انہوں نے کہا کہ درخواست دینے والوں میں سے بہت سے افراد خوف زدہ ہیں، ان کے پاس امریکا کے ساتھ ماضی میں وابستگی کی وجہ سے افغانستان یا اپنے پڑوسی ملک پاکستان کو چھوڑنے کی حساس وجوہات ہیں۔
سابق فوجیوں اور وکالت گروپوں کے اتحاد ’افغان ایویک‘ نے ایگزیکٹو آرڈر کے اجرا کے بعد ایک بیان میں کہا کہ ’اپنے افغان اتحادیوں کی حفاظت میں ناکامی دنیا کو ایک خطرناک پیغام دیتی ہے کہ امریکی وعدے مشروط اور عارضی ہیں، یہ فیصلہ ہماری قیادت پر عالمی اعتماد کو کمزور کرتا ہے اور مستقبل کے اتحادوں کو خطرے میں ڈالتا ہے‘۔ٹرمپ انتظامیہ کے سینئر ارکان بشمول قومی سلامتی کے نئے مشیر مائیک والٹز، جنہیں افغانستان میں جنگ کا تجربہ ہے، آبادکاری کے پروگرام کے کھل کر حامی رہے ہیں، لیکن ٹرمپ کے دیگر معاونین، جن میں امیگریشن کے بارے میں شکوک و شبہات رکھنے والے اسٹیفن ملر بھی شامل ہیں، تقریباً تمام امیگریشن کے سخت مخالف رہے ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک امریکا ایک لاکھ 90 ہزار سے زائد افغانوں کو آباد کر چکا ہے۔ جن افغانوں کو پناہ گزین کا درجہ دیا جاتا ہے، وہ اکثر امریکا کی زیر انتظام این جی او کے لیے کام کرتے تھے، امریکی فوج یا افغانستان میں امریکی مشن کے کسی اور حصے میں ملازمت کرتے تھے، لیکن طویل عرصے تک خصوصی امیگرنٹ ویزا حاصل کرنے کے اہل نہیں تھے۔
پیر کو جاری ہونے والے حکم سے متاثر ہونے والوں میں 200 سے زیادہ نابالغ بھی شامل ہیں، جن کے رشتہ دار امریکا میں ہیں اور وہ باز آبادکاری کے اہل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ کی نئی پالیسی کی وجہ سے امریکا میں موجود ایک افغان امریکی فوجی کو ڈر ہے کہ اس کی کابل میں موجود بہن کو طالبان جنگجو سے شادی کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے، اس سے پہلے کہ وہ اور اس کا شوہر افغانستان سے نکل کر امریکا میں پناہ گزین کے طور پر آباد ہو سکیں، انہیں تاوان کے لیے اغوا کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔افغان امریکی فوجی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ میں سارا دن اس کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں، کل سے میں بہت پریشان ہوں، کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا، میں ٹھیک سے کھانا بھی نہیں کھا سکا، مجھے اچھی طرح نیند بھی نہیں آئی۔
افغان ایویک کے سربراہ شان وان ڈیور کے مطابق امریکا میں پناہ گزینوں کی بازآبادکاری کے لیے منظور کیے گئے فعال امریکی فوجی اہلکاروں کے تقریباً 200 اہل خانہ کو پیر کے روز دستخط کیے گئے ٹرمپ کے حکم نامے کے تحت اب سے اپریل کے درمیان پروازوں سے نکال دیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اس گروپ میں ایسے بچے اور افغان شہری شامل ہیں، جنہیں طالبان کی جوابی کارروائی کا خطرہ لاحق ہے، کیوں کہ انہوں نے امریکی حمایت یافتہ حکومت کے لیے جنگ لڑی تھی، جو 2 دہائیوں کے بعد اگست 2021 میں ملک سے آخری امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد ختم ہوئی تھی۔افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کا کہنا ہے کہ طالبان نے سابق عہدیداروں اور فوجیوں کو قتل کرنے، تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ حراست میں بھی لے رکھا ہے۔اکتوبر 2024 میں رپورٹ کیا گیا تھا کہ افغانستان میں جولائی اور ستمبر کے درمیان من مانی گرفتاری اور حراست کے کم از کم 24 واقعات، تشدد اور بدسلوکی کے 10 واقعات سامنے آئے اور کم از کم 5 سابق فوجی مارے گئے۔
طالبان نے سابق امریکی حمایت یافتہ حکومت کے عہدیداروں اور فوجیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا تھا اور کسی بھی انتقامی کارروائی کے الزامات کی تردید کی ہے۔طالبان کی حمایت یافتہ حکومت کے ایک ترجمان نے ان خاندانوں کے خلاف انتقامی کارروائی کے خدشے کے بارے میں سوالات کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔گزشتہ مئی میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگرچہ طالبان نے جبری شادیوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے، لیکن اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے انسانی حقوق ان الزامات پر فکرمند ہیں کہ طالبان جنگجوؤں نے قانونی نتائج کے بغیر یہ عمل جاری رکھا ہے۔سابق افغان امریکی فوجیوں کا کہنا ہے کہ ہماری قسمت واضح نہیں ہے کہ آگے چل کر ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے، نئی انتظامیہ کی جانب سے آنیوالی پالیسی ان افغان باشندوں کے لیے ہرگز اچھی نہیں ہے، جنہوں نے اپنی جانوں کو خطرات میں ڈالتے ہوئے امریکا کے لیے افغانستان میں خدمات انجام دیں۔